کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ۱۔ اگر ایک آدمی کے دو گھر ہیں، جیسے ایک بیوی حیدر آباد میں ہو او رایک کراچی میں تو یہ آدمی دونوں جگہوں پر مقیم کے حکم میں ہو گا،یا نہیں؟
۲۔اگر ایک آدمی کے والدین جیسے حیدرآباد میں رہتے ہیں اور آدمی یہاں کراچی میں رہتا ہو، پھرجب یہ آدمی حیدرآباد جائے والدین کے پاس تو اس کا حکم کیا ہے،یہ مقیم کے حکم میں ہے ،یا نہیں؟
۳۔اگر ایک آدمی کی دوجگہوں پر زمین وجائیداد ہو اور اس آدمی نے ایک جگہ پر سکونت اختیار کی ہو اور دوسری جگہ پر اس کے بھائی وغیرہ رہتے ہوں تو اس کا حکم کیا ہے ؟یہ دونوں جگہوں پر مقیم کے حکم میں ہے یا نہیں؟
۱۔دونوں جگہوں پر مقیم ہو گا اور پوری نماز پڑھے گا۔
۲۔صورت مذکورہ میں اگر اس شخص نے کراچی کو وطن اصلی بنالیا ہو، یعنی اپنے اہل وعیال کے ساتھ کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرلی ہو، تو جب حیدر آباد میں والدین کے پاس جائے گا تو مسافر رہے گا،مگر یہ کہ وہاں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے۔
۳۔جس جگہ بھائی رہتا ہے، یہ شخص وہاں مسافر ہے او رجہاں وہ خود رہتا ہے وہ مقیم ہے۔
"الْوَطَنُ الْأَصْلِیُّ ہُوَ وَطَنُ الْإِنْسَانِ فِی بَلْدَتِہِ أَوْ بَلْدَۃٍ أُخْرَی اتَّخَذَہَا دَارًا وَتَوَطَّنَ بِہَا مَعَ أَہْلِہِ وَوَلَدِہِ، وَلَیْسَ مِنْ قَصْدِہِ الِارْتِحَالُ عَنْہَا بَلْ التَّعَیُّشُ بِہَا وَہَذَا الْوَطَنُ یَبْطُلُ بِمِثْلِہِ لَا غَیْرُ، وَہُوَ أَنْ یَتَوَطَّنَ فِی بَلْدَۃٍ أُخْرَی وَیَنْقُلَ الْأَہْلَ إلَیْہَا فَیَخْرُجَ الْأَوَّلُ مِنْ أَنْ یَکُونَ وَطَنًا أَصْلِیًّا حَتَّی لَوْ دَخَلَہُ مُسَافِرًا لَا یُتِمُّ.''(البحر الرائق، باب المسافر،٢/٢٣٩،رشیدیۃ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی