کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کچھ جگہوں میں گھر کے اندر اس طرح تراویح ادا کی جارہی ہے کہ اما م صاحب جو کہ بالغ ہیں تراویح پڑھا رہے ہیں، پیچھے مرد پڑھ رہے ہیں اورگھر کے دوسرے کمرے میں یا پردہ لگا کر مردوں کے پیچھے خواتین تراویح ادا کررہی ہیں۔
خواتین کو نماز تراویح کس طرح ادا کرنا صحیح ہے اور کس طرح صحیح نہیں اور اس میں کیا کچھ گنجائش ہے؟اس کی وضاحت کردیں۔
خواتین کا نماز تراویح اداء کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی گھر میں حافظ قرآن ہو اور وہ تراویح پڑھائے، تو گھر کی محرم عورتیں اس میں شریک ہوسکتی ہیں، اور گھر کی غیر محرم عورتیں بھی شریک ہوسکتی ہیں، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک تو وہ باپردہ ہوں اور دوسری یہ کہ وہ اکیلی نہ ہوں، بلکہ امام کی محرم عورتوں میں سے بھی کوئی ہو، اور تیسری یہ کہ عورتوں کی صفیں مردوں کے پیچھے ہوں اور اگر عورتیں الگ کمرے میں ہوں یا درمیان میں دیوار حائل ہو ،تو اس کمرے کا متصل ہونا اور برابر میں ہونا ضروری ہے۔لما في الھندیۃ:
’’إمامۃ الرجل للمرأۃ جائزۃ إذا نوی الإمام إمامتھا، ولم یکن في الخلوۃ، أما إذا کان الإمام في الخلوۃ، فإن کان الإمام لھن أو لبعضھن محرما فإنہ یجوز ویکرہ، ویکرہ إمامۃ المرأۃ للنساء في الصلوات کلھا من الفرائض والنوافل إلا في صلاۃ الجنازۃ..... وصلاتھن فرادی أفضل، وإمامۃ الصبي المراھق لصبیان مثلہ یجوز، وعلی قول أئمۃ بلخ: یصح الاقتداء بالصبیان في التراویح والسنن المطلقۃ المختار أنہ لایجوز في الصلوات کلھا.... وکرہ لھن حضور الجماعۃ إلا للعجوز في الفجر..... والفتویٰ الیوم علی الکراھۃ في کل الصلوات لظھور الفساد وھو المختار‘‘. (کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ:143/1، دارالفکر بیروت).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:183/217