کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تراویح میں جب کلام پاک ختم ہوجاتا ہے تو بعض لوگ تراویح پڑھنا بھی چھوڑ دیتے ہیں کیا یہ صحیح ہے؟
یہاں دو چیزیں جدا جدا سنت ہیں، ایک تو تراویح میں ختم قرآن ہے جو مستقل الگ سنت ہے، دوسرے تراویح یہ علیحدہ سنتِ مؤکدہ ہے،تراویح رمضان کا چاند نظر آنے پر شروع ہوتی ہیں اور عید الفطر کا چاند نظر آنے پر ختم ہوتی ہیں، چناں چہ اگر کلام پاک کسی جگہ ایک دن یا تین دن یا سات دن یا دس پندرہ روز میں ختم ہو جائے تو بھی بقیہ رمضان میں تراویح پڑھنی ہوں گی، کیوں کہ یہاں ایک سنت ختم قرآن تو مکمل ہوگئی ،مگر دوسری سنت تراویح باقی ہیں ،لہٰذا ختم قرآن کے بعد رمضان کی جتنی راتیں باقی ہوں ،ان میں بھی تراویح جماعت سے پڑھنی چاہیے۔السنۃ في التراویح إنما ہو الختم مرۃ فلا یترک لکسل القوم، کذا في الکافي ۔۔۔ لوحصل الختم لیلۃ التاسع عشر أو الحادي والعشرین لا تترک التراویح في بقیۃ الشھر؛ لأنھا سنۃ، کذا في الجوھرۃ النیرۃ، الأصح أنہ یکرہ لہ الترک کذا في السراج الوہاج.(الھندیۃ: کتاب الصلاۃ، فصل في التراویح:١/١١٨، رشیدیۃ)
ویکرہ للمقتدي أن یقعد في التراویح فإذا أراد الإمام أن یرکع یقوم؛ لأن فیہ إظہار التکاسل في الصلاۃ والتشبہ بالمنافقین.(الخانیۃ علی ھامش الھندیۃ:کتاب الصلاۃ،فصل في أداء التراویح قاعدا:١/٢٤٤، رشیدیۃ) (وکذا في الحلبي الکبیر فصل في النوافل، التراویح: ص:٤١٠، سھیل اکیڈمی، لاہور)
وإذا فاتتہ ترویحۃ أو ترویحتان فلو اشتغل بہا یفوتہ الوتر بالجماعۃ یشتغل بالوتر ثم یصلي ما فاتہ من التراویح. (الھندیۃ:کتاب الصلاۃ،فصل في التراویح:١/١١٧، رشیدیۃ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی