خارج نماز شخص کے کہنے پر نماز میں تکبیریں کہنے کا حکم

خارج نماز شخص کے کہنے پر نماز میں تکبیریں کہنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی اسکول میں جماعت ہورہی تھی، نماز کے دوران ہی انتطامیہ کی کوششوں سے صفیں بڑھ گئیں، اب ایک استاد صاحب(جو اس وقت جماعت میں شامل نہ تھے) نے نمازیوں کو حکم دے دیا کہ تکبیر کہنا شروع کریں (واضح رہے کہ پہلے دو تین مکبرین کے ساتھ جماعت ہوتی تھی، لیکن بعد میں تعداد کم ہونے کی وجہ سے مکبرین خاموش رہنے لگے تھے) چنانچہ دوسری رکعت میں تکبیروں کی آواز آنا شروع ہوگئی، شک تو اسی وقت پڑ گیا کہ یہ استاد صاحب کے حکم پر عمل ہوا ہوگا، بعد میں پوچھنے پر تصدیق بھی ہوگئی۔
بچوں کو خارج نماز والے سے لقمہ لینے سے متعلق مسئلہ کا علم نہیں تھا، وہ استاذ صاحب کی ہدایات سن کر تکبیریں کہتے رہے، اب ان کی نماز تو فاسد ہوگئی، تاہم سوال یہ ہے کہ ان کی تکبیرات سننے اور اس پر عمل کرنے والے نمازیوں کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟ امام صاحب سے قریب جو صفیں تھیں، وہاں کھڑے نمازیوں کو امام صاحب کی بھی آواز آرہی تھی اور مکبرین کی بھی، جبکہ دور والے صرف مکبرین کی آواز پر انتقالات کررہے تھے۔ ایک تیسرا فریق وہ تھا جس کے کانوں میں امام کی آواز پڑرہی تھی، لیکن عدم توجہی کی بنا پراس کی توجہ مکبرین کی آواز پر تھی، مذکورہ تینوں کی نماز کا حکم بتادیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں جن مقتدیوں نے اپنے استاد کے کہنے پر بغیر کچھ سوچے سمجھے فوراً تکبیر کہہ دی، تو اس صورت میں ان مقتدی مکبرین کی نماز بھی فاسد ہوگئی او ر جنہوں نے ان مکبرین کی تکبیرات پر اپنی نماز پڑھی ان کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی۔
اور اگر مقتدیوں نے اپنے استاد کے کہنے پر فوراً تکبیر نہیں کہی، بلکہ پہلے خود سوچا کہ واقعتاً تکبیر کہنے کی ضرورت ہے اوراس کے بعد تکبیر کہی، اس صورت میں نہ مکبرین مقتدیوں کی نماز فاسد ہوگی اور نہ ہی ان مکبرین کی تکبیرات پر اپنی نماز پڑھنے والوں کی نماز فاسد ہوگی، اور جن مقتدیوں نے امام صاحب کی تکبیرات سن کر ان کی اقتداء کی تو ان کی نماز بھی فاسد نہ ہوئی۔
لما في الھندیۃ:
’’لو سمعہ المؤتم ممن لیس في الصلاۃ ففتحہ علی إمامہ یجب أن یبطل صلاۃ الکل ؛لأن التلقین من خارج کذا في البحر الرائق‘‘. (کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا:157/1،دارالفکر)
وفي رد المحتار:
ولو سمعہ المؤتم ممن لیس في الصلاۃ ففتح بہ علی إمامہ یجب أن تبطل صلاۃ الکل لأن التلقین من خارج.۱ھ.وأقرہ في النہر،ووجھہ أن المؤتم لما تلقن من خارج بطلت صلاتہ ،فإذا فتح علی إمامہ وأخذ منہ بطلت صلاتہ‘‘. (کتاب الصلاۃ، باب فیما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیھا: 461/2، رشیدیۃ).فقط. واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/349