کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ کبھی کبھی جہاز پندرہ دِن سے زائد عرصے تک کنارہ وغیر ملکی بندر گاہ پر کھڑا رہتا ہے، جسکا بعض اوقات ہمیں پہلے سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کتنے دن کھڑا رہنا پڑے گا اور بعض اوقات اندازہ نہیں ہو پاتا ، ہر دوصورتوں میں ہم کس طرح نماز ادا کریں؟
جب تک قابل اقامت جگہ میں پندرہ دن یا اس سے زائد کی اقامت کی نیت نہیں کرے گا ،مسافر ہی رہے گا او راس صورت میں جب کہ یہ معلوم نہیں کہ جہاز کب تک یہاں رکے گا، قصر ہی کرے گا اقامت کی نیت معتبر نہیں ہے۔
''(أو) نوی (فیہ)(لکن فی غیر صالح)أو کنحو جزیرۃ قال ابن عابدین۔ قولہ: فیہ) أی فی نصف شھر۔۔۔قال فی المجتبی: والملاح مسافر إلا عند الحسن وسفینتہ ایضاً لیست بوطن، ظاہرہ ولو کان ما لہ وأھلہ معہ فیھا ثم رأیتہ صریحا فی المعراج (الدر المختار، کتاب الصلوٰۃ ٢/١٢٥،١٢٦، سعید)
''(أَوْ لَمْ یَکُنْ مُسْتَقِلًّا بِرَأْیِہِ) کَعَبْدٍ وَامْرَأَۃٍ (أَوْ دَخَلَ بَلْدَۃً وَلَمْ یَنْوِہَا) أَیْ مُدَّۃَ الْإِقَامَۃِ (بَلْ تَرَقَّبَ السَّفَرَ) غَدًا أَوْ بَعْدَہُ (وَلَوْ بَقِیَ) عَلَی ذَلِکَ (سِنِینَ) (قَوْلُہُ وَلَمْ یَنْوِہَا) وَکَذَا إذَا نَوَاہَا وَہُوَ مُتَرَقِّبٌ لِلسَّفَرِ کَمَا فِی الْبَحْرِ لِأَنَّ حَالَتَہُ تُنَافِی عَزِیمَتَہُ.''(الدر المختار مع رد، کتاب الصلوٰۃ، باب صلاۃ المسافر، ٢/١٢٦، سعید).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی