کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر جنازے میں اتنی عجلت کا حکم ہے تو جہاں کہیں، یعنی ہسپتال یا کسی دوسرے شہر یا ملک سے باہر کوئی بزرگ انتقال کر جائیں تو ان کو وہیں دفن کرنا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہوتا بلکہ آبائی گاؤں میں دفن کیا جاتا ہے ،چاہے تین دن گذر جائیں ،اس کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے ؟نیز جنازہ پڑھنے کے بعد کتنی دیر تک دفن کرنے کی اجازت ہے ؟
میت کو اسی جگہ دفن کرنا مستحب ہے جہاں اس کا انتقال ہوا ہے اگر چہ کسی دوسرے شہر میں ہوا ہو،بنا بریں میت کو دوسری جگہ منتقل کرنا درست نہیں ہے، بلکہ غیر مستحب ہے ۔ ویستحب في القتیل والمیت دفنہ في المکان الذي مات في مقابر أولئک القوم، وإن نقل قبل الدفن إلی قدر میل أو میلین فلا بأس بہ، کذا في الخلاصۃ. وکذا لو مات في غیر بلدہ، یستحب ترکہ، فإن نقل إلی مصر آخر لابأس بہ.(الھندیۃ: کتاب الصلاۃ، الجنائز، الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مکان إلی آخر: ١/١٦٧،رشیدیۃ)
قولہ:(ویندب دفنہ في جھۃ موتہ)أي:في مقابر أھل المکان الذی مات فیہ أو قتل، وإن نقل قدر میل أو میلین فلابأس، شرح المنیۃ ویأتي الکلام علی نقلہ. قلت: ولذا صح أمرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بدفن قتلی أحد في مضاجعھم صح أن مقبرۃ المدینۃ قریبۃ، ولذا دفنت الصحابۃ الذین فتحوا دمشق عند أبواھا ولم یدفنوا کلھم في محل واحد۔ (ردالمحتار: کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، مطلب في دفن المیت: ٢/٢٣٩، سعید).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی