کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سعودی عرب میں جمعہ کے دن پہلی اذان ظہر کا وقت داخل ہونے سے ٹھیک آدھ گھنٹے پہلے ہوتی ہے، کچھ لوگ سنت پڑھتے ہیں اور کچھ نہیں، نہ پڑھنے والوں کا کہنا ہے کہ ظہر کا ٹائم ہی نہیں، بلکہ زوال کا ٹائم ہے تو نماز کیسے پڑھیں، ٹھیک ٹائم پر دوسری اذان ہوتی ہے، اور خطبہ شروع ہوتا ہے، اب کچھ لوگ خطبہ کے دوران نماز شروع کرتے ہیں، ہم لوگ جماعت کے بعد پہلے والی سنتیں بھی پڑھ لیتے ہیں۔ برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں کہ ہم حنفی لوگ کون سا طریقہ اپنائیں؟
نماز جمعہ کا وقت داخل ہونے کے بعد خطبہ شروع ہونے سے پہلے پہلے اگر سنتیں مختصر طور پر بھی ادا کرنا ممکن نہ ہوں، تو پھر انہیں نماز جمعہ کے بعد نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پڑھ لیا جائے، خطبہ کے دوران یا وقت سے پہلے سنتیں ادا کرنا درست نہیں۔لما في الدر مع الرد:
’’(بخلاف سنۃ الظھر) وکذا الجمعۃ (فإنہ) إن خاف فوت رکعۃ یترکھا ویقتدي (ثم یأتي بھا) علی أنھا سنۃ (في وقتہ)أي: الظھر‘‘.
قال الشامي رحمہ اللہ:
’’(قولہ:وکذا الجمعۃ) أي:حکم الأربع قبل الجمعۃ کالأربع قبل الظھر کما لا یخفی.......
قال الرافعي رحمہ اللہ:
(قولہ:أن ھذا مقتضی ما في المتون وغیرھا) إذ ما قالہ في المتون وغیرھا من أن سنۃ الظھر تقضی یقتضي أن سنۃ الجمعۃ تقضی إذ لا فرق‘‘.(کتاب الصلاۃ باب إدراک الفریضۃ، مطلب ھل الإساء ۃ دون الکراھۃ أو أفحش:٢/ ٦١٩-٦٢١، رشیدیۃ)
وفي البحر الرائق مع المنحۃ الخالق:
’’وحکم الأربع قبل الجمعۃ کالأربع قبل الظھر کما لا یخفی.......
(قولہ:وحکم الأربع قبل الجمعۃ إلخ) أقول...... أن سنۃ الظھر تقضی یقتضي أن تقضی سنۃ الجمعۃ....... وأما سنۃ الظھر فإنما قالوا بقضائھا لحدیث عائشۃ رضي اللہ عنہا....... فتکون سنۃ الظھر خارجۃ عن القیاس للحدیث المذکور فلا یقاس علیھا سنۃ الجمعۃ، فتأمل‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ: ٢/ ١٣٢، ١٣٣، رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/211