کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ جمعہ کی اذان کے بعد اگر کوئی شخص دنیاوی کاروبار (خرید وفروخت اور سارے معاملات) کرتا ہے تویہ عمل ان کا حرام میں شمار ہوتا ہے، پوچھنا یہ ہے کہ
۱۔ اس سے مراد جمعہ کی پہلی اذان ہے یا دوسری اذان ،
۲۔دوسرا یہ کہ ان کا وہ کاروباروغیرہ کرنا بالکل خنزیر کی طرح حرام ہے،یا کہ کم؟
۳۔تیسرا یہ کہ وہ کاروبار کرنے والا شخص برابر کی دوسری مسجد سے نماز پڑھ کر اپنا کاروبار شروع کرسکتا ہے یا نہیں ؟کیوں کہ ان لوگوں کی دکان جس مسجد کے عین سامنے ہے، وہاں جماعت بعد میں ہوتی ہے، اس کے علاہ ان لوگوں کو کس حدتک منع کرنا چاہیے،زبان سے روکنے کی حد تک، اس فتوی کی حد تک یا اس سے بڑھ کر طاقت کے استعمال سے، جس سے کہ لڑائی جھگڑے کا خدشہ ہے، کس طرح روکنا چاہیے؟
۱۔اس سے اذانِ اوّل مراد ہے۔
۲۔جمعہ کی اذان کے بعد بیع وشراء مکروہ تحریمی ہے، ایسی بیع ناجائز اور واجب الفسخ ہوتی ہے، اگرچہ اس کی حرمت خنزیر کی حرمت سے کم ہے۔
۳۔جب کاروبار کرنے والا شخص برابر کی مسجد کے علاوہ دوسری مسجد میں نماز جمعہ پڑھ کر اپنا کاروبار شروع کرتا ہے تو فی نفسہ یہ کاروبار جائز ہے، مگر مظنہ تہمت سے بچنے کے لیے اس سے بھی احتراز واجب ہے، کسی کو کیا معلوم کہ اس نے جمعہ کی نماز دوسری مسجد میں ادا کر لی ہے،ایسے شخص کو اولاً نرمی اور مصلحت کے تحت منع کرنا چاہیے، اس سے نہ مانے تو روکنے کی جیسی قدرت ہو ویسے عمل کرے۔
''(وَکُرِہَ) تَحْرِیمًا مَنَعَ الصِّحَّۃَ (الْبَیْعُ عِنْدَ الْأَذَانِ الْأَوَّلِ) لَکِنْ فِی النَّہْرِ عَنْ النِّہَایَۃِ أَنَّ فَسْخَہُ وَاجِبٌ عَلَی کُلٍّ مِنْہُمَا أَیْضًا صَوْنًا لَہُمَا عَنْ الْمَحْظُورِ.'' (الدر المختار علی رد المحتار ٥/١٠١، سعید).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی