تنسیخ نکاح کی ڈگری کا حکم

تنسیخ نکاح کی ڈگری کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں مسماۃ سمیرا ناز 13 سال قبل شادی ہوئی خالہ کے لڑکے کے ساتھ، حق مہر سونا اور مکان رجسٹری حق مہر مقرر ہوا۔ خاوند نے چند ماہ گزارے، لیکن وہ کاروبار کے لیے باہر ملک چلا گیا، اس کے بعد ہمارے معاملات بگڑتے گئے۔ وہ حقوق ادا نہیں کرتا، خرچہ بھی نہیں دیتا، اور نامرد بھی ہے۔ کبھی طلاق کی بات کرتا تو کبھی رجسٹری مکان کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے، کبھی رشتہ بسانے کے لیے مکان کی رجسٹری واپس کرنے کا کہتا ہے۔ مجھے ذہنی اذیت میں مبتلا رکھا ہوا ہے۔ معاملہ کو طول دینا چاہتا ہے، اس مجبوری کی بناء پر میں نے عدالت کا رخ کیا۔ اس نے وکیل مقر رکیا پہلے حاضر ہوتا تھا، لیکن پھر حاضر نہیں ہوتا تھا۔ عدالت نے مجھے تنسیخ نکاح کی ڈگری جاری کردی۔ میں بہت مجبور ہوں۔ میں اس تنسیخ نکاح کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آگے نکاح کرسکتی ہوں یا نہیں؟

جواب

اسلام نے طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے اور اگر عورت کسی وجہ سے مرد کے ساتھ نہ رہنا چاہے اور مرد طلاق نہ دے رہا ہو، تو کسی طرح اس کو خلع پر راضی کیا جائے، مرد کی رضامندی کے بغیر خلع معتبر نہیں۔
اور اگر شوہر ظالم ہو اور نان ونفقہ نہ دیتا ہو، یا نامرد ہو اور حقوق زوجیت ادا نہ کرتا ہو، اور طلاق و خلع پر راضی نہ ہو، تو اس وقت عورت کو تنسیخ نکاح کا حق حاصل ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ عورت کسی مسلمان قاضی یا جج کی عدالت میں مقدمہ دائر کرے، اور اپنا دعوی پیش کرے، پھر عدالت اس شخص کو عدالت میں حاضر کرے اور اگر وہ ان الزامات کی تصدیق کرلے، تو پھر عدالت اس سے ان چیزوں کے ازالے کا کہے، کہ ظلم چھوڑ دو اور نان ونفقہ دے دو، اور اگر وہ نامرد ہے، تو اس کو مہلت دے کہ وہ اپنا علاج کروائے، اگر وہ اس طرح کرتا ہے تو عدالت کو تنسیخ نکاح کا حق حاصل نہیں، اگر وہ اس طرح نہ کرے، تو پھر عدالت کی تنسیخ نکاح کی ڈگری معتبر ہوگی۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر تنسیخ نکاح کی ڈگری مذکورہ صورت کے مطابق جاری کی گئی ہے، تو پھر معتبر ہوگی، بصورت دیگر معتبر نہیں ہوگی۔
کذا في الحیلۃ الناجزۃ:
(رقم الورقۃ: ٤٢، ٧٢، ط: دار الاشاعت)
لما في القرآن الکریم:
«فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَأُولٰئِکَ ھُمُ الظَّالِمُوْنَ».(البقرۃ، رقم الآیۃ: ٢٢٩)
وفي رد المحتار:
’’وأما رکنہ فھو کما في البدائع: إذا کان بعوض الإیجاب والقبول لأنہ عقد علی الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقۃ، ولا یستحق العوض بدون القبول‘‘.(کتاب الطلاق، باب الخلع: ٥/ ٨٩:رشیدیۃ).
وفي المبسوط للسرخسي:
’’قال:والخلع جائز عند السلطان وغیرہ؛ لأنہ عقد یعتمد التراضي، کسائر العقود، وھو بمنزلۃ الطلاق بعوض، وللزوج ولایۃ إیقاع الطلاق، ولھا ولایۃ التزام العوض، فلا معنی لاشتراط حضرۃ السلطان في ھذا العقد‘‘.(الجزء السادس، باب الخلع: ٣/ ٢١٢:غفاریۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/206