کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جس طرح پنچ وقتہ نمازوں کے لیے امام مقرر کیا جاتا ہے ،اسی طرح ماہ رمضان میں تراویح پڑھانے کے لیے کسی حافظ امام کو مقرر کرنا کیساہے جائز ہے یانہیں؟
چوں کہ مقصود اصل یہاں امامت نہیں، بلکہ تراویح میں قرآن کریم کا ختم ہے، اس لیے اس پرجو اجرت لی اور دی جائے گی وہ ختم قرآن کریم کی وجہ سے ہو گی نہ محض امامت کی وجہ سے ،لہٰذا ناجائز ہو گی اور قرآن کریم کی اجرت حلال کرنے کے لیے یہ حیلہ اختیار کرنا درست نہ ہوگا ۔فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لایجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقرء ۃ وإعطاء الثواب للآمر، والقراء ۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر ولولا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ھذا الزمان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلۃ إلی جمع الدنیا.(رد المحتار، کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب تحریر فھم في عدم جواز الاستئجار علی التلاوۃ الخ: ٩/٩٥، حقانیۃ پشاور).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی