کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کوئی شخص تراویح کی کچھ رکعات پڑھ کر پھر وتر پڑھے اور آخر میں جو تراویح کی رکعات باقی رہ گئی ہیں وہ پڑھے توکیا ایسا کرنا صحیح ہے؟
افضل اوربہتریہ ہےکہ پہلے پوری بیس رکعت تراویح پڑھ لیں ،اس کےبعدوترپڑھیں،اوراگرتراویح کی کچھ رکعتیں چھوٹ گئی ہوں،توچھوٹی ہوئی رکعتیں دوترویحہ کےدرمیان پڑھ لیں،اور اگرموقعہ نہ ملے،تووترکےبعدبھی پڑھ سکتاہے۔لما في التنوير مع الدر:
’’(ووقتها بعد صلاة العشاء قبل الوتر وبعده)في الأصح،فلوفاته بعضها وقام الإمام إلى الوترأوترمعه ثم صلى ما فاته، الأول: أن وقتها الليل كله، قبل العشاء وبعده. وقبــل الوتر وبعده؛ لأنهاقيام الليل‘‘.(كتاب الصلاة، مبحث صلاة التراويح: 2/597: رشيدية)
وفي مراقي الفلاح مع حاشية الطحاوي:
’’(ووقتهابعدالعشاء،ويصح تقديم الوترعلى التراويح،وتأخيره عنها)وهوأفضل‘‘.(كتاب الصلاة، فصل في التراويح، ص:413: رشيدية).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:183/234