تراویح کی بیس رکعات کا ثبوت

تراویح  کی بیس رکعات کا ثبوت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ تراویح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟اس کی کتنی رکعات ہیں؟کیا حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا کوئی ثبوت ہے؟اگر ہے تو کتنی رکعات؟
ہمارے یہاں لوگ کہتے ہیں کہ تراویح کی نماز صرف آٹھ رکعات ہیں ،بیس رکعات کا کوئی ثبوت نہیں ہے،اس سے عوام میں بڑا خلجان  ہے،برائے کرم آپ واضح دلائل کے ساتھ قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح صورت حال متعین فرمائیں ،تاکہ ہماری پریشانی دور ہو اور راہِ صواب ہم پر کھل جائے اور پھر اطمینان سے اس پر عمل پیرا ہو جائیں ۔

جواب

تراویح سنت مؤکدہ ہےاور مرد و عورت دونوں کے لیے حکم ایک ہی ہے اور تراویح کی بیس رکعات ہیں اور یہ بیس رکعات سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہےں اسی لیے حضرات تابعین ،تبع تابعین، آئمہ مجتہدین، حضرت امام اعظم ابو حنفیہ ،حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک تراویح کی بیس رکعات ہیں اور حضرت امام مالک رحمہ اللہ کے ایک قول کے مطابق بھی تراویح کی بیس رکعات ہیں، ان چاروں برحق اماموں نے بیس سے کم تراویح کو اختیار نہیں فرمایا۔یہی جمہور کا قول ہے اور آج تک مشرق سے مغرب تک پوری دنیا میں اسی پر امتِ مسلمہ کا عمل ہے،آج کل بھی مسجدِ حرام مکہ مکرمہ میں ،مسجد نبوی(علی صاحبہا الصلوۃ والسلام) مدینہ منورہ میں تراویح بیس رکعات ہوتی ہیں ۔ آٹھ رکعت تراویح پر عمل کرنے والے بہت اقلیت میں ہیں اور غلطی پر ہیں ،کیوں کہ جن روایات میں آٹھ رکعت کا ذکر ہے اس سے تہجد کی نماز مراد ہے،تراویح کی نماز مراد نہیں ہے اور یہ دونوں نمازیں الگ الگ ہیں۔
(التراویح سنۃ مؤکدۃ) لمواظبۃ الخلفاء الراشدین للرجال والنسائ. (التنویر مع الدر، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل: ٢/٤٣، سعید)
وفي إعلاء السنن: وفي المغني لابن قدامۃ: وقیام شھر رمضان عشرون رکعۃ یعني صلاۃ التراویح وھي سنۃ مؤکدۃ، وأول من سنھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ثم ذکر بعض ما ذکرنا من الأحادیث في المتن) إلی أن قال :ونسبت التراویح إلی عمر بن الخطاب؛ لأنہ جمع الناس علی أبي بن کعب، فکان یصلیھا بھم۔۔۔ قولہ:عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا الخ. قال المؤلف: دلالتہ علی قیام رمضان مع الجماعۃ من النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ظاہرۃ والمراد بھذہ اللیالي لیالي رمضان.(إعلاء السنن: کتاب الصلاۃ: باب التراویح: ٧/٥٨، إدارۃ القرآن، کراچی)
  حدیث عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنھما، أن رسول اﷲ کان یصلي في رمضان عشرین رکعۃ والوتر. (رواہ ابن أبي شیبۃ في مصنفہ، رقم: ٧٧٧٤)

تراویح کی بیس رکعات ہونے پر چند دلائل درج ذیل ہیں۔
ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم وتر اور بیس رکعات (تراویح )پڑھا کرتے تھے۔
(ف)اس روایت کو ابن ابی شبیہ نے اپنی مصنف میں ،عبد بن حمید نے اپنی مسند میں ،طبرانی نے معجم کبیر میں،بیہقی نے اپنی سنن میں اور امام بغوی نے مصابیح السنہ میں تحریر فرمایا ہے اس حدیثِ مرفوع کے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے ابراہیم بن عثمان کے ،لیکن محض ایک راوی کی وجہ سے جب کہ بعض سے اس کی توثیق بھی منقول ہے،بالکل نظر انداز کرنا صحیح نہیں، علاوہ اس کے بہت سے آثار قویہ اور تعاملِ صحابہ سے اس کی تائید ہوتی ہے،جس سے اس کا یہ معمولی سا ضعف بھی دور ہوجاتا ہے اور اس مسئلہ میں اس سے استد لال کرنا یقینا درست اور صحیح ہے۔
وھذہ الأحادیث وإن لم تبین لنا صراحۃ أنہ کم کان قدر صلاتہ في رمضان سوی التھجد؟ ولکنھا تفید أن صلاتہ في لیالي رمضان کانت أزید من صلاتہ في غیرھا، ثم وجدنا أن أبا بکر بن أبي شبیۃ قدأخرج في مصنفہ: حدثنا: یزید بن ھارون، قال: أخبرنا إبراہیم بن عثمان، عن الحکم عن مقسم، عن ابن عباس: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یصلي في رمضان عشرین رکعۃ والوتر:وأخرجہ الکشي في ''مسندہ'' والبغوي في معجمہ والطبراني في الکبیرلہ والبیھقي في سننہ کذا في التعلیق الحسن ورجالہ کلھم ثقات إلا إبراہیم بن عثمان جد أبی بکر بن أبي شیبۃ. فضعفہ الجمہور،وقال ابن عدي: لہ أحادیث صالحۃ، وھو خیر من إبراہیم بن أبي حیۃ وقال یزید بن ھارون: وکان في علی کتابتہ أیام کان قاضیا ما قضیٰ علی الناس رجل یعني في زمانہ أعدل في قضاء منہ،کذا في التھذیب،۔۔۔۔ وأما قول ابن الھمام:أن ھذا الأثر ضعیف بأبي شیبۃ إبراہیم بن عثمان متفق علی ضعفہٖ مع مخالفتہ للصحیح؛ فھو ساقط لما قلنا:إن ابن عدي أشار إلی توثیقہ، ورجحہ علی من ھو حسن الحدیث علی قاعدتھم وإن سلمنا ضعفہ فقد صرح المحقق نفسہ في ''فتح القدیر''بأنہ إذا تأید الضعیف بما یدل علی صحتہ من القرائن کان صحیحا. (إعلاء السنن،کتاب الصلاۃ، باب التراویح: ٧/٧٠، ٧١، إدارۃ القرآن)
قال ابن رشد القرطبي واختلفوا في المختار عن عدد الرکعات التي یقوم بھا الناس في رمضان: فاختار مالک في أحد قولیہ، وأبوحنیفۃ، والشافعي، وأحمد، وداؤد :القیام بعشرین رکعۃ سوی الوتر. (بدایۃ المجتہد: کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في قیام رمضان: ٢/٤٦٠،عباس أحمد الباز)
قال ابن تیمیۃ: قد ثبت أن أبي بن کعب کان یقوم بالناس عشرین رکعۃ في قیام رمضان ویوتر بثلاث،فرأی کثیر من العلماء أن ذلک ھو السنۃ؛ لأنہ أقامہ بین المہاجرین والأنصار ولم ینکرہ منکر.(مجموعۃ الفتاویٰ: ٢٣/٦٧، مکتبۃ العبیکان)
قال الملا علي القاري: أجمع الصحابۃ علی أن التراویح عشرون رکعۃ. (مرقاۃ المفاتیح:باب قیام شہر رمضان: ٣/٣٧٢، رشیدیۃ)
وفي الرد:قولہ(وھي عشرون رکعۃ)ھو قول الجمہور،وعلیہ عمل الناس شرقاً و غرباً ـ (رد المحتار علی الدر المختار: کتاب الصلاۃ: مبحث صلاۃ التراویح: ٢/٤٥، سعید)
و حَدَّثَنِی عَنْ مَالِک عَنْ یَزِیدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّہُ قَالَ کَانَ النَّاسُ یَقُومُونَ فِی زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِی رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِینَ رَکْعَۃً.(مؤطا الإمام مالک:ما جاء في قیام رمضان ص:٩٨، میر محمد کتب خانہ)
ترجمہ: حضرت یزید بن رومان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، کے زمانہ میں لوگ بیس رکعات (تراویح)اور تین رکعات وتر پڑھا کرتے تھے ۔
عن یحییٰ بن سعید: أن عمر بن الخطاب أمر رجلا یصلي بھم عشرین رکعۃ (رواہ أبو بکر بن أبي شیبۃ في مصنفہ وإسنادہ مرسل قوی، رقم: ٧٧٦٤)
ترجمہ:حضرت یحییٰ بن سعید رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائے۔
وعن عبد العزیز بن رفیع کان أبي بن کعب یصلي بالناس في رمضان بالمدینۃ عشرین رکعۃ ویوتر بثلاث. (أخرجہ أبو بکر بن أبي شیبۃ في مصنفہ و إسنادہ حسن، رقم:٧٧٦٦)
ترجمہـ:حضرت عبد العزیزبن رفیع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک میں مدینہ منورہ میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، لوگوں کو بیس رکعات تراویح اور تین رکعت وتر پڑھایا کرتے تھے ۔
عن عطاء بن السائب، عن أبي عبد الرحمن السلمي، عن علي رضي اﷲ عنہ، قال: دعا القرآء في رمضان فأمر منھم رجلا یصلي بالناس عشرین رکعۃ، قال: وکان علي رضي اﷲ عنہ، یوتر بھم. (السنن الکبریٰ للبیہقي: کتاب الصلوۃ، باب ما روی في عدد رکعات القیام في شھر رمضان: ٢/٦٩٩، دارالکتب العلمیۃ)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ، نے رمضان المبارک میں قراء کو بلایا پھر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے راوی کا کہنا ہے کہ وتر حضرت علی رضی اللہ عنہ، خود پڑھایا کرتے تھے۔
ف: ان روایتوں اور دیگر تصریحات سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر،حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم اجمعین کے زمانہ میں ان کے قول و عمل سے بیس رکعت تراویح پڑھی جاتی تھیں ۔
علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ”المغنی”میں بڑے دلکش انداز سے بیس رکعات تراویح پڑھنے کے پس منظر کو اس طرح ذکر فرمایا کہ تراویح کی بیس رکعات ہیں اور یہ سنت مؤکدہ ہیں سب سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا آغاز فرمایا ،دو یا تین شب آپ نے ان کی باقاعدہ جماعت فرمائی،پھر جب آپ نے اس کے بارے میں حضرات صحابہئ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا انتہائی شوق و جذبہ دیکھا تو آپ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں نماز تراویح امت پر فرض نہ ہو جائے اس لیے آپ نے اس کی جماعت ترک فرمادی،اور حضرات صحابہ انفرادی طور پر پڑھتے رہے ،یہاں تک حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور آگیا،آپ انتہائی غور وفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد اب ان کی فرضیت کا کوئی امکان نہیں ،لہٰذا اسے پھر باقاعدہ جماعت کے ساتھ ادا کرنا چاہیے، بالآخر آپ نے اس کا فیصلہ فرمالیا اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو تراویح کی امامت پر مقرر فرمایا،حضرات صحابہ میں سے کسی نے آپ کے اس فیصلہ پر نکیر نہیں فرمائی بلکہ بخوشی اس پر عمل شروع کردیا اور روایتِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ، نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو بیس رکعات پڑھنے کا حکم فرمایاتھا،تمام صحابہ کرام حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے،اسی پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہو گیا اور اجماع خود مستقل حجتِ شرعی ہے اس لیے بیس رکعت تراویح کے ثبوت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے ،یہی راہِ حق ہے اور اس کو چھوڑنا گمراہی ہے۔
وھي سنۃ مؤکدہ و أول من سنھا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أبو ھریرۃ: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یرغب في قیام رمضان من غیر أن یأمرھم فیہ بعزیمۃ فیقول: من قام رمضان إیمانا و احتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ. وقالت عائشۃ رضي اللّٰہ عنھا صلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في المسجد ذات لیلۃ فصلی بصلاتہ ناس ثم صلی من القابلۃ وکثر الناس ثم اجتمعوا من اللیلۃ الثالثۃ أوالرابعۃ فلم یخرج إلیھم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلما أصبح قال: قد رأیت الذي صنعتم فلم یمنعني من الخروج إلیکم إلا أني خشیت أن تفرض علیکم .قال وذلک في رمضان، رواھما مسلم۔۔۔۔۔۔ فروي عن عبدالرحمن بن عبدالقاری قال:خرجت مع عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ لیلۃ في رمضان إلی المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون، یصلي الرجل لنفسہ، ویصلي الرجل فیصلي بصلاتہ الرہط، فقال عمر: إني أری لو جمعت ہؤلاء علی قارئ واحد، لکان أمثل ثم عزم، فجمعہم علی أبي بن کعب، ثم خرجت معہ لیلۃ أخری، والناس یصلون بصلاۃ قارئہم، قال عمر: نعمت البدعۃ ہذہ، والتي ینامون عنہا أفضل من التي یقومون۔۔۔۔۔۔ یرید آخر اللیل وکان الناس یقومون أولہ. أخرجہ البخاري ۔۔۔ وما کان علیہ أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أولی وأحق أن یتبع. (المغني لابن قدامۃ،کتاب الصلاۃ، عدد صلاۃ التراویح: ١/٨٣٣،٨٣٥، دارالفکر).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی