تراویح میں قرآن سنانے پراجرت لینا

تراویح میں قرآن سنانے پراجرت لینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک حافظ جو رمضان میں قرآن سنا رہا ہو اور قرآن شریف سنانے پر کوئی اجرت مقرر نہیں کی،جبکہ حافظ نہایت ہی غریب اور طالب علم وہ لوگ جو مقتدی ہیں، قرآن کے ختم کرنے پر حافظ کو کچھ رقم یا کپڑا دینا چائیں تواس حافظ کو لینا اور استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

اگر حافظ صاحب کو معلوم ہے کہ قرآن سنانے پر کچھ روپیہ ملے گا ،یا دینا معروف ہے تو اس حافظ صاحب کا کچھ لینا درست نہیں،وگرنہ لینے کی وجہ سے سامع اور قاری دونوں ثواب سے محروم ہیں۔

لما فی الشامیۃ:

(قَوْلُہُ وَلَا لِأَجْلِ الطَّاعَاتِ) الْأَصْلُ أَنَّ کُلَّ طَاعَۃٍ یَخْتَصُّ بِہَا الْمُسْلِمُ لَا یَجُوزُ الِاسْتِئْجَارُ عَلَیْہَا عِنْدَنَا لِقَوْلِہِ- عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ- اقْرَء ُوا الْقُرْآنَ وَلَا تَأْکُلُوا بِہِ وَفِی آخِرِ مَا عَہِدَ رَسُولُ اللَّہِ - صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - إلَی عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَإِنْ اُتُّخِذْتَ مُؤَذِّنًا فَلَا تَأْخُذْ عَلَی الْأَذَانِ أَجْرًا وَلِأَنَّ الْقُرْبَۃَ مَتَی حَصَلَتْ وَقَعَتْ عَلَی الْعَامِلِ وَلِہَذَا تَتَعَیَّنُ أَہْلِیَّتُہُ، فَلَا یَجُوزُ لَہُ أَخْذُ الْأُجْرَۃِ مِنْ غَیْرِہِ کَمَا فِی الصَّوْمِ وَالصَّلَاۃِ.''(الدر المختار علی رد المحتار، کتاب الإجازۃ، ٩/٩٣، حقانیہ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی