کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بریلوی امام کی اقتداء میں نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ خصوصاً تبلیغ والوں کے لیے، جب ان کی تشکیل بریلویوں کی مسجد میں ہو، تو اس صورت میں ان کے لیے کیا حکم ہے؟
بریلوی امام اگر شرکیہ عقائد کا حامل ہے، تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں، اور اگر عقائد شرکیہ نہ ہوں تو اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، البتہ اگر قریب میں کوئی صالح امام میسر نہ ہو ،تو ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور یہ حکم تبلیغ والوں اور غیر تبلیغ والوں سب کے لیے ہے۔لما في البدائع:
’’وإمامۃ صاحب الھوی والبدعۃ مکروھۃ، نص علیہ أبو یوسف في (الأمالي) فقال: أکرہ أن یکون الإمام صاحب ھوی وبدعۃ؛ لأن الناس لا یرغبون في الصلاۃ خلفہ، وھل تجوز الصلاۃ خلفہ؟ قال بعض مشایخنا :إن الصلاۃ خلف المبتدع لا تجوز. وذکر في (الملتقی) روایۃ عن أبي حنیفۃ أنہ کان لا یری الصلاۃ خلف المبتدع، والصحیح أنہ إن کان ھوی یکفرہ لا تجوز، وإن کان لا یکفرہ تجوز مع الکراھۃ‘‘.(کتاب الصلاۃ، فصل في بیان من یصلح للإمامۃ: ١/ ٦٦٨:دار الکتب العلمیۃ)
وفي التنویر مع الدر:
’’(ومبتدع): أي صاحب بدعۃ، وھي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندۃ بل ینوع شبھۃ، وکل من کان من قبلتنا (لا یکفر بھا) حتی الخوارج الذین یستحلون دماء نا وأموالنا وسب الرسول، وینکرون صفاتہ تعالی وجواز رؤیتہ لکونہ عن تأویل وشبھۃ بدلیل قبول شہادتھم، إلا الخطابیۃ ومنا من کفرھم (وإن) أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ (کفر بھا) کقولہ: إن اللہ تعالی جسم کالأجسام، وإنکارہ صحبۃ الصدیق (فلا یصح الاقتداء بہ أصلا) فلیحفظ‘‘.(کتاب الصلاۃ، مطلب البدعۃ خمسۃ أقسام: ٢/ ٣٥٦:وحیدیۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/111