بیٹھ کر اقامت کہنے کا حکم

بیٹھ کر اقامت کہنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ مؤذن بیماری کی وجہ سے کھڑے ہوکر اقامت نہ کہہ سکے، تو اقامت بیٹھ کر کہے یا پھر کوئی دوسرا بندہ کہے، اس کا حکم بتادیں۔

جواب

واضح رہے کہ بیٹھ کر اقامت کہنا مکروہ ہے، لہذا مؤذن صاحب کے صحت یاب ہونے تک کوئی اور اقامت کہنے کی ذمہ داری نبھائے۔
لما في الدر مع الرد:
’’(ویکرہ أذان جنب وإقامتہ وإقامۃ محدث لا أذانہ) علی المذھب (و) أذان (امرأۃ) وخنث (وفاسق) ولو عالما، لکنہ أولی بإمامۃ وأذان من جاھل تقي (وسکران) ولو بمباح کمعتوہ وصبي لا یعقل (وقاعد إلا إذا أذن لنفسہ) وراکب إلا لمسافر‘‘.(کتاب الصلاۃ، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب:75/2:رشیدیۃ)
وفیہ أیضا:
’’(والإقامۃ کالأذان) فیما مر‘‘.
وتحتہ:
’’(قولہ: فیما مر) قید بہ لئلا یرد علیہ أن ترک الإقامۃ یکرہ للمسافر دون الأذان، وأن المرأۃ تقیم ولا تؤذن، وأن الأذان آکد في السنیۃ منھا کما یأتي، وأراد بما مر أحکام الأذان العشرۃ المذکورۃ في المتن، وھي أنہ سنۃ للفرائض، وأنہ یعاد إن قدم علی الوقت، وأنہ یبدأ بأربع تکبیرات، وعدم الترجیع، وعدم اللحن، والترسل والالتفات والاستدارۃ وزیادۃ الصلاۃ خیر من النوم في أذان الفجر، وجعل أصبعیہ في أذنیہ، ثم استثنی من العشرۃ ثلاثۃ أحکام لا تکون في الإقامۃ فأبدل الترسل بالحدر والصلاۃ خیر من النوم بقد قامت الصلاۃ، وذکر أنہ لا یضع أصبعیہ في أذنیہ، فبقیت الأحکام السبعۃ مشترکۃ، ویرد علیہ الاستدارۃ في المنارۃ فإنھا لا تکون في المنارۃ، فکان علیہ أن یتعرض لذلک، والحاصل أن الإقامۃ تخالف الأذان في الأربعۃ ما مر، وتخالفہ أیضا في مواضع ستأتي مفرقۃ‘‘.(کتاب الصلاۃ، مطلب في أول بنی المنابر للأذان:67/2:رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/210