بیس رکعات سے کم تراویح پڑھنا کیسا ہے؟

بیس رکعات سے کم تراویح پڑھنا کیسا ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیاشریعت اسلام کے مطابق ہم تراویح کی آٹھ رکعت، بارہ رکعت، سولہ رکعت پڑھ سکتے ہیں؟ یا ہمیں بیس رکعت پڑھنا ضروری ہے؟

جواب

بیس رکعات  تراویح سنت ہے ،اسی پر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اور جمہور فقہاءکرام کا اجماع ہے،اس بارے میں صحابہ کرام رضون اللہ تعالی علیہم اجمعین کے متعدد روایات و اقوال منقول ہیں :
چنانچہ ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘میں حضرت عبد اللہ  ابن عباس  رضی اللہ تعالی عنہما   سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ  نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  رمضان میں بیس رکعتیں اور وتر پڑھا کرتے تھے ۔
اسی طرح ’’السنن الکبری للبیھقی ‘‘ میں حضرت سائب بن یزید  رضی اللہ تعالی عنہ  سےمروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالی عنہ   کے دور میں رمضان میں لوگ بیس رکعتیں پڑھا کرتے تھے ، اورحضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ  کے دورمیں شدت قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے ۔
اور  ’’موطا امام مالک ‘‘ میں حضرت یزیدبن رومان   رضی اللہ تعالی عنہ  سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر  رضی اللہ تعالی عنہ   کےزمانے میں  تیئیس رکعات  پڑھا کرتے تھے  (بیس تراویح اور تین وتر)۔
اور اسی طرح ’’کنزالعمال ‘‘میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو حکم دیا کہ رمضان میں لوگوں کو رات کے وقت نماز پڑھایا کریں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ لوگ دن کو روزہ رکھتے ہیں، مگر اچھی طرح پڑھنا نہیں جانتے ہیں، پس کاش!تم رات میں ان کو قرآن سناتے، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ امیر المؤمنین یہ ایک ایسی چیز ہے جو پہلے نہیں ہوئی حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ یہ تو مجھے معلوم ہے، لیکن یہ اچھی چیز ہے، چنانچہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ نے بیس رکعتیں پڑھائیں ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی فرماتیں ہیں کہ تراویح میں اہل علم کا اختلاف ہے،بعض حضرات اکتالیس رکعت کے قائل ہیں، اہل مدینہ کا یہی قول ہے، اور ان کے یہاں مدینہ طیبہ میں اسی پر عمل  ہے ،اور اکثر اہل علم بیس رکعت کے قائل ہیں جو  حضرت علی، حضرت عمراور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے مروی ہے، سفیان ثوری، عبد اللہ بن مبارک اور امام شافعی رحمہم اللہ تعالی کا بھی یہی قول ہے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعت  پڑھتے دیکھا ہے ۔
مذکورہ روایات اور آثار صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیم اجمعین کے پیش نظر بیس رکعت تراویح پڑھنا سنت مؤکدہ ہے ۔
لما في اعلاء السنن :
وقال الحافظ ابن قدامة في المغني: والمختار عند أبي عبد الله رحمه الله تعالی فيها عشرون رکعة، وبھذا قال الثوري، وابو حنیفة والشافعي، وقال مالک: ستة وثلاثون ...ولنا أن عمر رضي الله تعالی عنه لما جمع الناس علی أبي بن کعب رضي الله تعالی عنه کان یصلي لهم عشرون رکعة ،رواه أبو داؤد،و رواہ السائب  بن یزید ،وروي عنه  من طرق ،وروي مالک عن یزید بن رومان قال:«کان الناس یقومون في زمن عمر في رمضان بثلاث وعشرین رکعة». وعن علي: «أنه أمر رجلاً یصلي بهم في رمضان عشرين رکعة» وهذاکالإجماع.(کتاب الصلاة، باب التراویح ،7/86:ادارة القراان والعلوم الاسلامی)
وفي المحيط البرهاني:
وأما الكلام في كمها، فنقول إنها مقدرة العشرين ركعة عندنا والشافعي رحمه الله، وعند مالك رحمة الله عليه أنه مقدرة بست وثلاثين ركعة اتباعاً لعمر وعلي رضي الله عنهما، فإن قاموا بما قال مالك بالجماعة، فلا بأس به عند الشافعي، وعندنا يكره بناءً على أن التنفل بجماعة... والمكروه عندنا خلافاً للشافعي رحمه الله، وإن أتوا ما على العشرين إلى تمام ست وثلاثين فرادى، فلا بأس به وهو مستحب.(كتاب الصلاة، الفصل الثالث عشر، التراويح والوتر، 2/ 249-250:ادارةالقران)
وكذا في البحر الرائق:
(كتاب الصلاة،باب الوتروالنوافل، 2/ 215-217:رشیدية).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:183/230