کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں جب سے ٹریکٹر آیا ہے، تو لوگوں نے بیل(مذکر)پالنا چھوڑ رکھا ہے، پورے علاقے میں ایک گائیں کا فارم ہے،صرف اس میں بیل ہیں، اس کے علاوہ کہیں اور نہیں۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ لوگ اپنی گائے کو جفتی کرانے کے لیے وہاں لے جاتے ہیں، بیل کا مالک اس فعل پر 1000 روپے وصول کرتا ہے، اور یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ میں نے بیل کو اس کام کے لیے پال رکھا ہے، اور اس سے بیل کو طاقت ور غذائیں کھلاتا ہوں، اگر میں اس کا معاوضہ نہ لوں، تو بیل دو چار ہفتے بعد کسی کام کا نہیں رہے، تو کیا اس معاوضہ کا لینا اور دینا جائز ہے؟ حالاں کہ لوگوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ کار نہیں، اور مصنوعی ٹیکہ لگوانے پر خرچہ بھی زیادہ آتا ہے، اور کبھی اس سے حمل ٹھہرتا ہے، تو کبھی نہیں، اس وجہ سے خرچہ بلا وجہ بڑھ جاتا ہے۔
جانوروں کو جفتی کرانے پر اجرت لینا اور دینا دونوں ناجائز ہے، رہے وہ اعذار جو آپ نے ذکر کیے ہیں، یہ ایسے اعذار نہیں ہیں، جن کی وجہ سے شریعت کے حکم میں کوئی تعبیر اور تبدیلی آجائے۔
لما في صحيح البخاري:
عن ابن عمر–رضي الله عنهما–قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن عسب الفحل. (كتاب الإجارة، باب عسب الفحل، ص: 364، دار السلام)
وفي التنوير مع الدر:
(لا تصح الإجارة لعسب التيس) وهو نزوه على الإناث. (كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة: 9/92، رشيدية).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 172/52