بحری جہاز میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کا حکم

بحری جہاز میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم ایک بحری جہاز میں ملازمت کرتے ہیں، ہمارے ساتھ کام کرنے والے اکثر غیر مسلم ہیں، مسلمانوں کی تعداد اسی/ سو کے قریب ہے، ہم نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں، البتہ جمعہ کی نماز کے بارے میں آپ حضرات سے راہ نمائی درکار ہے کہ کیا ہم جمعہ کی نماز جہاز میں ادا کرسکتے ہیں؟واضح رہے کہ ہمارا جہاز مہینوں سمندر میں رہتا ہے۔

جواب

بحری جہاز میں نماز جمعہ پڑھنے کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ اگر بحری جہاز سمندر میں چل رہا ہو یا سمندر ہی میں کھڑا ہوـ تو اس وقت جہاز سمندر کے حکم میں ہوگا اور چوں کہ سمندر نہ مصر ہے اور نہ ہی فنائے مصر میں داخل ہے، لہذا اس صورت میں بحری جہاز میں سوار افراد پر نماز جمعہ پڑھنا لازم نہیں ہوگا۔
البتہ اگر جہاز ساحل پر ٹھہرا ہوا ہو، تو اس کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ ساحل مصر، قریہ کبیرہ (بڑا قصبہ) یا اس کی حوائج میں داخل ہو اور اس جہاز کا عملہ اسی علاقے کا ہو، تو ان لوگوں پر نماز جمعہ پڑھنا لازم ہے اور وہ عملہ جو کسی دوسری جگہ سے مسافت شرعی طے کرکے آئے ہیں، تو وہ مسافر ہیں، اگرچہ ان پر نماز جمعہ پڑھنا لازم نہیں، البتہ مقیمین (مقامی عملے) کے ساتھ مل کر نماز جمعہ ادا کرسکتے ہیں، اور اگر وہ ساحل مصر (شہر)، قریہ کبیرہ (قصبہ) یا اس کی ضروریات کے ساتھ متصل نہ ہو، تو اس صورت میں جہاز کے عملے اور سواروں میں سے کسی پر نماز جمعہ پڑھنا لازم نہیں۔
نوٹ: جس صورت میں جن افراد پر نماز جمعہ پڑھنا لازم ہے، وہ بحری جہاز میں بھی نماز جمعہ پڑھ سکتے ہیں، البتہ مستحب یہ ہے کہ جب تک جہاز سے باہر نکل کر نماز ادا کرنا ممکن ہو تو باہر نکل کر نماز ادا کی جائے۔
لما في مصنف ابن أبي شیبۃ:
’’عن الحارث عن علي رضي اللہ عنہ قال: لا جمعۃ ولا تشریق ولا صلاۃ فطر ولا أضحی إلا في مصر جامع أو مدینۃ عظیمۃ........‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، رقم الحدیث: ٥٠٩٩،  ٤/ ٤٦: العلمي)
وفي البدائع:
’’أما الذي یرجع إلی المصلي ستۃ: العقل والحریۃ والذکورۃ والإقامۃ وصحۃ البدن......
وأما الشرائط التي ترجع إلی غیر المصلي فخمسۃ في ظاھر الروایات: المصر الجامع والسلطان والخطبۃ والجماعۃ والوقت‘‘.(کتاب الصلاۃ، فصل في بیان شرائط الجمعۃ، ٢/ ١٨٦- ١٨٨: دار الکتب العلمیۃ).
وفي الشامیۃ:
’’قال في المجتبی:والملاح مسافر وسفینتہ أیضًا لیست بوطن وظاھرہ ولو کان مالہ وأھلہ معہ فیھا، ثم رأیتہ صریحًا في المعراج‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، ٢/ ٧٢٩: رشیدیۃ).
وفي الھندیۃ:
ولا یصیر مقیمًا بنیۃ الإقامۃ فیھا وکذلک صاحب السفینۃ والملاح إلا أن تکون السفینۃ بقرب من بلدتہ أو قریتہ فحینئذ یکون مقیمًا بإقامتہ الأصلیۃ‘‘.(کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر في صلاۃ المسافر، ١/ ٢٠٤:دار الفکر).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/98