بارش کے وقت سات اذانیں دینے کی حقیقت

بارش کے وقت سات اذانیں دینے کی حقیقت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے کے لوگ بارش کو روکنے کےلیے "سات آذانیں "دیتے ہیں اوراسی طرح کسی سید شخص کو بلاکر اس سے کیل گڑواتے ہیں ،اوریہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مذکورہ کام کی وجہ سے بارش رک جائے گی،اب آیا شریعت مطہرہ میں اس کی کوئی حقیقت ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ بارش روکنے کے لیے "سات اذانیں "دینا اور کسی سید شخص کے ذریعے سے کیل زمین میں گڑوانا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ مذکورہ کام کرنے سے بارش رک جائے گی،اس کی  شریعت میں کوئی  حقیقت نہیں ہے،لہذا ایسے کاموں سےاجتناب کریں  ۔

البتہ فقہاء کرام نے زلزلہ اور دیگر (سورج گرہن،چاند گرہن،آندھی ،بجلی اور بارش جو تھمتی نہ ہو)نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے،جو کہ آپﷺکے عمل سے بھی ثابت ہے۔

لمافي التنويرمع الرد:

( لا)يسن( لغيرها ) كعيد قوله ( لا يسن لغيرها)أي في الصلوات وإلا فيندب للمولود(كتاب الصلات،مطلب في المواضع التي يندب له الاذان في غير الصلات:2/62،ط:وحيدية)

وفيه ايضا:

( صلى الناس فرادى ) في منازلهم تحرزا عن الفتنة ( كالخسوف ) للقمر ( والريح ) الشديدة ( والظلمة ) القوية نهارا والضوء القوي ليلا ( والفزع ) الغالب ونحو ذلك من الآيات المخفوفة كالزلازل ،والصواعق ،والثلج، والمطر الدائمين ،وعموم الأمراض.(كتاب الصلات،باب الكسوف:3/80،79،ط:رشيدية)

وفي عمدة القاري:

حدثنا ( عبد الله بن مسلمة ) عن ( مالك ) عن ( صالح بن كيسان ) عن ( عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود ) عن ( زيد بن خالد الجهني ) أنه قال صلى لنا رسول الله ﷺصلاة الصبح بالحديبية على إثر سماء كانت من الليلة، فلما انصرف أقبل على الناس ،فقال هل تدرون ماذا قال ربكم قالو الله ورسوله أعلم قال أصبح من عبادي مؤمن بي وكافر فأما من قال مطرنا بفضل الله ورحمته ،فذلك مؤمن بي وكافر بالكوكب وأما من قال بنوء كذا وكذا، فذلك كافر بي ومؤمن بالكوكب.(كتاب الاذان،باب يستقبل الامام الناس إذاسلم:6/195،196،ط:دارالكتب العلمية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر: 176/40،41