کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری مسجد میں دس سال سے نماز تراویح ہوتی ہے، دوسری اورتیسری منزل میں تین پارے اور پہلی منزل میں سوا پارہ۔ ایک مفتی صاحب نے فرمایا کہ اس طرح ایک ساتھ دو منزلوں میں تراویح پڑھنا حرام ہے، میں ایک ہی مسجد کے دو فلور پر نماز تراویح کے سلسلے میں مسئلہ جاننا چاہتا ہوں؟ اس طرح سے تراویح کا اہتمام کرنا شریعت کی رو شنی میں کیسا ہے؟
صورت مسئولہ میں ایک ہی مسجد میں دو جگہ تراویح کی جماعت کرانا درست ہے، اگر دونوں اماموں کی آوازوں میں ٹکراؤ پیدا نہ ہو، البتہ ایک امام کی اقتداء میں جماعت تراویح پڑھنا بہتر ہے۔لما في صحیح البخاري:
’’عن عبدالرحمٰن بن عبدالقاري أنہ قال: خرجت مع عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ لیلۃ في رمضان إلی المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون، یصلي الرجل لنفسہ ویصلي الرجل فیصلي بصلاتہ الرھط، فقال عمر: إني أری لو جمعت ھٰؤلاء علی قارئ واحد لکان أمثل، ثم عزم فجمعھم علی أبي بن کعب، ثم خرجت معہ لیلۃ أخری والناس یصلون بصلاۃ قارئھم، قال عمر: نعم البدعۃ ھذہ، والتي ینامون عنھا أفضل من التي یقومون-یرید آخر اللیل- وکان الناس یقومون أولہ‘‘. (کتاب صلاۃ التراویح، باب فضل من قام رمضان، رقم الحدیث:2010، ص:322، دارالسلام للنشر والتوزیع).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:183/219