کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا ،ورثاء میں ایک زوجہ ،چھ بھائی اور چار بہنیں ہیں۔قرآن وحدیث کی روشنی میں تمام ورثاء کے حصے متعین فرمادیجیے۔
صورت مسئولہ میں سب سے پہلے مرحوم کے ترکہ میں سے ان کے کفن ودفن کے دمیانی اخراجات نکالے جائیں، بشرطیکہ کسی نے اپنی طرف سے تبرعاً ادا نہ کیے ہوں، اس کے بعد اگر ان کے ذمے واجب الاداء قرض یا دیگر مالی واجبات ہوں، تو وہ ادا کئے جائیں، پھر اگر مرحوم نے کسی غیر وارث کے لیے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو اس کو بقیہ ترکہ کے ایک تہائی میں سے نافذ کر دیا جائے ، پھر بقیہ ترکہ کو ورثاء کے درمیان شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے۔
تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ کل جائیداد کے ایک سو اٹھائیس برابر حصے کئے جائیں، جن میں سے بیوہ کو سولہ حصے، ہر ایک بیٹے کو چودہ حصے اور ہر ایک بیٹی کو سات حصے دیے جائیں۔
فیصدی لحاظ سے بیوہ کو%12.5، ہر ایک بیٹے کو%10.93، ہر ایک بیٹی کو%5.46 ملے گا۔لما في التنزیل العزیز:
«یوصیکم اللہ في أولادکم للذکر مثل حظ الأنثیین .....ولکم نصف ماترک أزواجکم إن لم یکن لھن ولد......فإن کان لکم ولدٌ فلھن الثمن»(سورۃ النساء:12،11).
وفي الفتاوی السراجیۃ:
’’قال رضي اللہ عنہ:أول ما یبدأ من ترکۃ المیت تجھیزہ وتکفینہ بما یحتاج إلیہ ودفنہ، ثم قضاء دیونہ الأولی فالأولی، ثم تنفیذ وصایاہ من ثلث ما بقي بعد الدین والکفن، ثم قسمۃ الباقي بین ورثتہ علی فرائض اللہ تعالی، ثم العصبات الأقرب فالأقرب‘‘.(کتاب الفرائض، باب فی استحقاق المیراث وعدمہ: 570، زمزم).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی(فتویٰ نمبر:177/252)