ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں ملازمت کرنے کا حکم

ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں ملازمت کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایکسائز اینڈ ٹکسیشن میں نوکری کرنا شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟
اس میں دو شعبے ہوتے ہیں:
۱…جائیداد اور پراپرٹی وغیرہ پر ٹیکس لگاتے ہیں۔
۲…گاڑی وغیرہ کی رجسٹریشن کرنی ہوتی ہے۔
برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔

جواب

ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن حکومت کے ماتحت ایک ایسا ادارہ ہے جو لوگوں کی جائیداد وغیرہ پر ٹیکس عائد کرتا ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے مبارک دور میں بیت المال کا مضبوط نظام قائم تھا اور اس میں مختلف قسم کے اموال جمع کیے جاتے تھے، پھر ان اموال سے ملکی انتظامی امور پر خرچ کیا جاتا تھا، مثلاً: پلوں کی تعمیر، سرحدوں کی حفاظت کا انتظام، فوجیوں، مزدوروں اور سرکاری ملازمین کی تنخواہ وغیرہ۔
لیکن اب چونکہ بیت المال منظم نہیں ہے، اس لیے ان ضروریات اور اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس کا نظام قائم کیا گیا ہے، لہٰذا اگر حکومت کے جائز مصارف دیگر ذرائع آمدن سے پورے نہیں ہوتے، تو چند شرائط کے ساتھ حکومت کو ٹیکس لینے کی اجازت ہوگی۔
٭…صرف بقدر ضرورت ٹیکس لگایا جائے۔
٭…ٹیکس غریبوں سے نہ لیا جائے۔
٭…ہر صاحب حیثیت شخص پر اس کی حیثیت کے مطابق ٹیکس لگایا جائے۔
٭…ٹیکس وصولی کا طریقہ آسان ہو، یعنی لوگوں کے لیے تکلیف اور ایذاء رسانی کا باعث نہ ہو۔
٭…ٹیکس کی رقم کو ملک کی واقعی ضرورتوں پر خرچ کیا جائے، بے جا اسراف اور ایسی جگہ خرچ نہ کیا جائے جس سے صرف ایک مخصوص طبقے کو ہی فائدہ ہو۔
لہٰذا اس ادارے(ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن)میں اگر مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کی جاتی ہے، تو پھر اس ادارے میں نوکری کرنا درست ہے، وگرنہ نہیں۔
لما في التنزیل:
«ولا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل ».(سورۃ البقرۃ:188)
وفیہ أیضاً:
«وتعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان».(سورۃ المائدۃ:02)
وفي سنن أبي داؤد:
عن عقبۃ بن عامرقال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول:’’لایدخل الجنۃ صاحب مکس یعنی العشار‘‘. (کتاب الخراج والفيء والإمارۃ، باب في السعایۃ علی الصدقۃ، رقم الحدیث:2937، ص:597، دارالسلام)
وفي رد المحتار:
قولہ: (وکذا النوائب) جمع نائبۃ وفي الصحاح: النائبۃ المصیبۃ، واحدۃ نوائب الدھر۱ھ.... وإن أرید مالیس بحق کالجبایات الموظفۃ علی الناس في زماننا ببلاد فارس علی الخیاط والصباغ وغیرھم للسلطان في کل یوم أو شھر فإنھا ظلم‘‘. (کتاب الکفالۃ، مطلب بیع العینۃ:663/7، رشیدیۃ)
وفي الدر المختار:
’’لایجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ولا ولایتہ‘‘.(کتاب الغصب:334/9، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:178/314