کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تراویح کی نماز میں بھولے سے دو کی جگہ تین رکعات پڑھ دی گئی اور اس تین رکعات کو دو رکعات مان لیے گئے اور اس طرح سے اکیس رکعات ہوگئیں، توکیااس صورت میں تراویح کی نماز ہوجائے گی؟
وضاحت: مستفتی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ دوسری رکعت میں قعدہ کے لیے نہیں بیٹھا تھا۔
صورت مسئولہ میں اگر دوسری رکعت پر قعدہ سے بھول کر کھڑا ہوگیااور تیسری رکعت پڑھ کر قعدہ کر کے سلام پھیر دیا ، تو تینوں رکعتیں بے کار ہوگئیں، پہلا شفعہ(پہلی دو رکعت) تو بوجہ نقصان کے واجب الاعادہ ہے، اور جو قرآن تینوں رکعتوں میں پڑھا گیا اسے لوٹانا ضروری ہے۔لما في التاتارخانیۃ:
’’ولو صلی أربعا تسلیمۃ واحدۃ ولم یقعد علی رأس الرکعتین ففي القیاس وھو قول محمد رحمہ اللہ: وزفر رحمہ اللہ وإحدی الروایتین عن أبو حنیفۃ رحمہ اللہ :أنہ تفسد صلاتہ ویلزمہ قضاء ھذا الترویح، وفي للإستحسان وھو قول أبي حنیفۃ رحمہ اللہ في المشھور ،وقول أبي یوسف رحمہ اللہ: یجوز، لکن عن تسلیمۃ واحدۃ أو عن تسلیمتین؟ قال بعضھم عن تسلیمتین وبہ أخذ الشیخ أبو اللیث رحمہ اللہ وفي الخانیۃ: وکذا لو صلی الأربع قبل الظھر ولم یقعد علی رأس الرکعتین جاز إستحسانا، وکان الشیخ أبو جعفر رحمہ اللہ یقول: یجزیہ عن تسلیمۃ واحدۃ، وفي الخانیۃ: ھو الصحیح وبہ کان یفتی الشیخ الإمام ابوبکر ....أقرب إلی الإحتیاط وکان الأخذ بہ وعلیہ الفتویٰ‘‘. (کتاب الصلاۃ، الفصل الثالث.... نوع آخر:330/2، فاروقیۃ).
فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:183/235