کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ اگر نماز کا وقت شروع ہو گیا اور عورت نے نماز نہیں پڑھی اور حیض شروع ہوگیا تو کیا اس کو طہارت کے بعد اس وقت کی نماز قضاء کرنی پڑے گی ؟ یا اس کی قضاء لا زم نہیں ہوگی ۔
اسی طرح اگر عورت کسی نماز کے بلکل اخیر وقت میں پاک ہوئی تو کیا اس پر وقت کی نماز کی قضاء بھی لازم ہوگی ؟ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں ۔
پہلی صورت میں مذکورہ عورت پر طہارت کے بعد اس وقت کی نماز کی قضاء لازم نہیں ہے ۔
البتہ دوسری صورت میں مذکورہ عورت پر اس وقت کی نماز کی قضاء لازم ہے ۔
لما فی الھندیہ :
"إذا حاضت فی الوقت او نفست،سقط فر ضہ، بقی من الوقت ما یمکن ان تتصلی فیہ اولا ھکذا فی الذخیرۃ"(کتاب الطھارۃ ، الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ :۱/۹۲۔ط دار الکفر )
وفیہ ایضا :
"واذا انقطع دم الحیض لاقل من عشرۃ ایام لم یجز وطوٗھا حتیٰ تغتسل او یمضی علیھا آخر وقت الصلاۃ الذی یسع الاغتسال والتحریمۃ ، لام الصلاۃ انما تجب علیھا اذا وجدت من آخر الوقت ھذا القدر ھکذا فی الزا ھدی". (کتاب الطھارۃ الفصل الرابع فی احکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ: ۱/ ۹۳ ط دار الفکر)
وفی البحر :
"ولو وضعتہ لیل ، فلما اصبحت رات الطھر تقضی العشاء فلو کانت طاھرۃ فرات البلۃ حین اصبحت تقضہا ایضا ان لم تکن صلتھا قبل الوضع انزالا لھا طاھرۃ فی الصورۃ الاولیٰ من حین وضعتہ وحائضا فی الثا نیۃ حین رفعتہ اخذا بالاحتیاط فیھما"( کتاب الطھارۃ : 332/1ط رشیدیہ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر: 176/62