امام صاحب کا محراب سے باہر کھڑے ہوکر نماز پڑھانا

امام صاحب کا محراب سے باہر کھڑے ہوکر نماز پڑھانا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ کہ ایک بزرگ باریش اور پابند صوم وصلوٰۃ آدمی نے ہمیں اس بات سے پریشان کر کھا ہے کہ نماز باجماعت صرف اس وقت ہو سکتی ہے، جب امام صاحب محراب کے اندر کھڑے ہو کر پڑھائیں ورنہ نماز نہیں ہوتی،مثلاً گرمیوں کے موسم میں حبس کی وجہ سے دو تین صفیں چھوڑ کر امام مسجد اپنا جائے نماز رکھ   لیتا ہے اور جماعت ہو جاتی ہے، وہ آدمی جماعت میں آکر شامل ہو جاتا ہے ، امام سلام پھیرتا ہے تو وہ امام کے ساتھ سلام نہیں پھیرتا او راپنے پاؤں گھسیٹتا ہوا محراب میں چلا جاتا ہے اور اپنی نماز شروع سے آخر تک پوری کرتا ہے ،لیکن اگر جماعت نہ ہورہی تو اکیلا اگلی صف پر تو کجا اگلی دیوار سے اتنا قریب کھڑا ہوتا ہے کہ سجدہ کرتے وقت اس کے سر کے بال یا پگڑی اگلی دیوار سے مس کرتی ہے اگر مس نہ کرے تو آگے اور کھسک جاتا ہے، بعض اوقات غصے میں ہو تو جماعت کی پرواہ کیے بغیر صفوں کوچیرتا ہوا اگلی خالی صف میں جاکر اپنی نماز پڑھنا شروع کر دیتا ہے، کئی دفعہ پیارسے سمجھایا گیا ہے، لیکن وہ یہ دلیل دیتا ہے کہ ہمارے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے اگلی صف میں نماز پڑھنے کا حکم فرمایا ہے ،براہِ کرم ہماری اس مشکل کا حل قرآن وحدیث کی روشنی میں فرمائیں کہ محراب میں یا اس کے قرب وجوار نماز باجماعت کے کیا مسائل ہیں او رکیا مسجد میں محراب کے سوا نماز باجماعت نہیں ہوسکتی؟

جواب

شامی کی عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ مقصود ومحراب نہیں بلکہ توسط امام ہے، پس ایک دو صف چھوڑ کر محراب کے محاذات میں جماعت قائم کرنا بلاکراہت جائز ہے،اگر محراب کے محاذات بھی نہ ہو مگر صف کا وسط ہو تب بھی جائز ہے۔

حضور اکرمﷺ نے فرمایا ” مردوں کے لیے بہترین صف صف اوّل ہے“ اگر صف اوّل میں جانے کے لیے دوسرے نمازیوں کو تکلیف ہو تو آخیر صف میں پڑھنا افضل ہے۔

''حدثنی أبوھریرۃ۔ رضی اﷲعنہ۔ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: وسطوا الإمام أی اجعلوا إمامکم بأن تصفوا خلفہ بحیث یکون الإمام حذاء وسط الصف. (بذ ل المجہود، کتاب الصلوٰۃ ١/٣٦٥، امدادیہ ملتان)

’قلت: أي لأن المحراب إنما بني علامة لمحل قيام الإمام ليكون قيامه وسط الصف كما هو السنة، لا لأن يقوم في داخله، فهو وإن كان من بقاع المسجد لكن أشبه مكاناً آخر، فأورث الكراهة، ولايخفى حسن هذا الكلام، فافهم، لكن تقدم أن التشبه إنما يكره في المذموم وفيما قصد به التشبه لا مطلقاً، ولعل هذا من المذموم تأمل. هذا وفي حاشية البحر للرملي: الذي يظهر من كلامهم أنها كراهة تنزيه، تأمل اهـ[تنبيه] في معراج الدراية من باب الإمامة: الأصح ما روي عن أبي حنيفة أنه قال: أكره للإمام أن يقوم بين الساريتين أو زاوية أو ناحية المسجد أو إلى سارية لأنه بخلاف عمل الأمة. اهـ. وفيه أيضا: السنة أن يقوم الإمام إزاء وسط الصف، ألا ترى أن المحاريب ما نصبت إلا وسط المساجد وهي قد عينت لمقام الإمام. اهـ. وفي التتارخانية: ويكره أن يقوم في غير المحراب إلا لضرورة اهـ ومقتضاه أن الإمام لو ترك المحراب وقام في غيره يكره ولو كان قيامه وسط الصف لأنه خلاف عمل الأمة، وهو ظاهر في الإمام الراتب دون غيره والمنفرد، فاغتنم هذه الفائدة فإنه وقع السؤال عنها ولم يوجد نص فيها‘‘(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)1/ 646).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی