استخارہ کرنے کا مقصد اور طریقہ کیا ہے؟

استخارہ کرنے کا مقصد اور طریقہ کیا ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ استخارہ کے بارے میں قرآن کریم میں کیا ارشاد ہے؟ اس کے بارے میں نبی پاک حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا کیا ارشاد ہے،” استخارہ کن موقعوں پر کرنا چاہیے اور اس کا درست طریقہ کیا ہے؟ برائے مہربانی تفصیل سے بتائیں؟

جواب

استخارہ کا مقصد اس کام میں بھلائی چاہنا ہے کہ اے اﷲ جو کام کرر ہا ہوں، اس میں میری مدد فرمائیے اور اس میں میرے لیے خیر ڈال دیجیے اور جس کام میں شر ہو اس سے مجھ دور رکھیے۔

استخارہ کے طریقے اہل اﷲسے کافی منقول ہیں، سب سے احسن طریقہ وہ ہے جو حدیث شریف میں مذکورہ ہے کہ جب کسی کام کا ارادہ کرے تو اچھی طرح وضو کرے اور دو  رکعت نماز نفل پڑھے، پہلی رکعت میں سورہ کافرون اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھے اور بعد میں دعا کرے اور دعا کے شروع میں حمد وثنا اور درود شریف پڑھے، استخارہ کی دعا کتب ادعیہ میں دیکھی جاسکتی ہے،باقی قرآن پاک میں تو استخارہ کے متعلق ذکر نہیں، حدیث شریف میں مذکورہے جیسے کہ امام ترمذی رحمہ اﷲ نے ابواب الوتر میں استخارہ کے متعلق باب قائم فرمایا ہے۔ (جامع ترمذی،ص١٠٩، ج١)استخارہ ہر جائز کام میں کرنا چاہیے جب کہ نفع ونقصان میں تردد ہو،حرام او رمکروہ کام میں استخارہ نہیں کرنا چاہیے۔

''عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَۃَ فِی الأُمُورِ کُلِّہَا کَمَا یُعَلِّمُنَا السُّورَۃَ مِنَ القُرْآنِ، یَقُولُ: " إِذَا ہَمَّ أَحَدُکُمْ بِالأَمْرِ فَلْیَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ مِنْ غَیْرِ الفَرِیضَۃِ، ثُمَّ لِیَقُلْ: اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْتَخِیرُکَ بِعِلْمِکَ، وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ العَظِیمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الغُیُوبِ، اللَّہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الأَمْرَ خَیْرٌ لِی فِی دِینِی وَمَعِیشَتِی وَعَاقِبَۃِ أَمْرِی - أَوْ قَالَ: فِی عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِہِ فَیَسِّرْہُ لِی، ثُمَّ بَارِکْ لِی فِیہِ، وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِی فِی دِینِی وَمَعِیشَتِی وَعَاقِبَۃِ أَمْرِی أَوْ قَالَ: فِی عَاجِلِ أَمْرِی وَآجِلِہِ - فَاصْرِفْہُ عَنِّی، وَاصْرِفْنِی عَنْہُ، وَاقْدُرْ لِی الخَیْرَ حَیْثُ کَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِی بِہِ، قَالَ: وَیُسَمِّی حَاجَتَہُ .''( ترمذی، کتاب الصلوٰۃ، باب ماجاء فی صلوٰۃ الاستخارۃ، ١/١٠٩،سعید)

''وَالِاسْتِخَارَۃِ أَیْ فِی أَنَّہُ ہَلْ یَشْتَرِی أَوْ یَکْتَرِی وَہَلْ یُسَافِرُ بَرًّا أَوْ بَحْرًا وَہَلْ یُرَافِقُ فُلَانًا أَوْ لَا لِأَنَّ الِاسْتِخَارَۃَ فِی الْوَاجِبِ وَالْمَکْرُوہِ لَا مَحَلَّ لَہَا.'' (الدر المختار، کتاب الصلوٰۃ،٢/٤٧١، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی