استخارہ کرنے کا مسنون طریقہ

استخارہ کرنے کا مسنون طریقہ

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کوئی دوسرا شخص میرے لیے استخارہ کرسکتا ہے؟میں بہت پریشان ہوں،رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ استخارہ سے مقصود رفع تردد،ایک جانب کو ترجیح اور طلب خیر ہے،نیز اس کامشروع طریقہ یہ ہے کہ استخارہ خود کیا جائے،لہٰذا آپ اگر تردد کا شکار ہیں اور کسی ایک جانب کو ترجیح دینا چاہتے ہیں تو سونے سے پہلے دو  رکعت نماز نفل پڑھیں، بہتر یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ کافرون اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھیں،سلام پھیرنے کے بعد حمد وثناء اور درود شریف کے بعد انتہائی خشوع و خضوع اور تضرع کے ساتھ یہ دعاء پڑھیں:اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْتَخِیرُکَ بِعِلْمِکَ، وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ،وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ العَظِیمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ،وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الغُیُوبِ، اللَّہُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الأَمْرَ خَیْرٌ لِی فِی دِینِی وَمَعاشِی وَعَاقِبَۃِ أَمْرِی فاقدِرہ لِی وَیَسِّرْہُ لِی، ثُمَّ بَارِکْ لِی فِیہِ، وَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الأَمْرَ شَرٌّ لِی فِی دِینِی وَمَعاشِی وَعَاقِبَۃِ أَمْرِی فَاصْرِفْہُ عَنِّی،وَاصْرِفْنِی عَنْہُ،وَاقْدُرْ لِی الخَیْرَحَیْثُ کَانَ،ثُمَّ أَرْضِنِی بِہ.جب''ہَذَا الأَمْرَ''پڑھیں تو جس چیز کے لیے استخارہ کر رہے ہیں اس کا خیال کریں ، اس کے بعد پاک وصاف بچھونے پر باوضو قبلہ کی طرف رخ کرکے سو جائیں ، صبح کو جس جانب زیادہ رحجان ہو اس کو اختیار کریں ، ان شاء اﷲ اسی میں خیر ہو گی، اگر ایک دن میں خلجان اور تردد  دور  نہ ہو تو اسی عمل کو سات دن تک کریں ،ﷲ نے چاہا تو اطمینان اور حجان حاصل ہو جائے گا۔

البتہ اگر تردد نہیں ہے،ویسے ہی کوئی پریشانی ہے ، تو دو رکعت صلاۃ الحاجات پڑھ کر اﷲ سے رو رو کر مانگیں،توبہ واستغفار بھی کریں،نیز صبح وشام یہ دعا پڑھ لیا کریں:''اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحَزَنِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ، وَقَہْرِ الرِّجَالِ.''ہم بھی آپ کے لیے دعاگو ہیں ، اﷲرب العالمین آپ کی تمام جائز حاجتوں کو پورا فرما کر آسانی اور عافیت کا معاملہ فرمائیں۔

''وَالِاسْتِخَارَۃِ أَیْ فِی أَنَّہُ ہَلْ یَشْتَرِی أَوْ یَکْتَرِی وَہَلْ یُسَافِرُ بَرًّا أَوْ بَحْرًا وَہَلْ یُرَافِقُ فُلَانًا أَوْ لَا لِأَنَّ الِاسْتِخَارَۃَ فِی الْوَاجِبِ وَالْمَکْرُوہِ لَا مَحَلَّ لَہَا.''(الدر المحتار، کتاب الصلوٰۃ ٢/٤٧١، سعید)

''وَیُسْتَحَبُّ افْتِتَاحُ ہَذَا الدُّعَاء ِ وَخَتْمُہُ بِالْحَمْدَلَۃِ وَالصَّلَاۃِ. وَفِی الْأَذْکَارِ أَنَّہُ یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَۃِ الْأُولَی الْکَافِرُونَ، وَفِی الثَّانِیَۃِ، الْإِخْلَاصَ،وَعَنْ بَعْضِ السَّلَفِ أَنَّہُ یَزِیدُ فِی الْأُولَی۔۔۔۔۔وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَاء ُ وَیَخْتَارُ وَفِی إلی قولہ یعلنون۔۔۔وَفِی الثَّانِیَۃِ (وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَۃٍ) الایۃ ینبغی أن یکرر سبعاً۔۔۔وَفِی شَرْحِ الشِّرْعَۃِ۔۔۔:الْمَسْمُوعُ مِنْ الْمَشَایِخِ أَنَّہُ یَنْبَغِی أَنْ یَنَامَ عَلَی طَہَارَۃٍ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَۃِ بَعْدَ قِرَاء َۃِ الدُّعَاء ِ الْمَذْکُورِ، فَإِنْ رَأَی مَنَامَہُ بَیَاضًا أَوْ خُضْرَۃً فَذَلِکَ الْأَمْرُ خَیْرٌ، وَإِنْ رَأَی فِیہِ سَوَادًا أَوْ حُمْرَۃً فَہُوَ شَرٌّ یَنْبَغِی أَنْ یُجْتَنَبَ.''(الدر المحتار مع رد، کتاب الصلوٰۃ ٢/٢٦،٢٧، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی