کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارےمیں کہ کلمات اذان کو کھینچ کھینچ کر خوش الحانی سے ادا کرنا شریعت مطہرہ کی روشنی میں جائز ہے یا نہیں؟ جیسے حرم مکی میں ہونے والی اذان ہے۔
بعض حضرات بطور دلیل حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے اثر کو پیش کرکے فرماتے ہیں کہ: کلمات اذان کو خوش الحانی سے ادا کرنا، نغمے اور گانا گانے جیسا ہے، لہذا اس سے احتراز کرنا چاہیے، وہ اثر یہ ہے:’’وقال عمر بن عبد العزیز: أذن أذانا سمحا وإلا فاعتزلنا. (بخاری شریف: ١/ ٢٠٨: البشری)قولہ:سمحا أي:سھلا بلا نغمات وتطریب....... أنہ نھاہ عن رفع الصوت قلت کأنہ کان یطرب في صوتہ ویتنغم، ولا ینظر إلی مد الصوت مجردا عن ذلک، فأمرہ عمر بن عبد العزیز بالسماحۃ وھي السھولۃ وھو أن یسمح بترک التطریب ویمد صوتہ‘‘.
براہِ کرم مسئلہ کا تسلی بخش جواب دے کر ممنون فرمائیں۔
واضح رہے کہ کلمات اذان کو بے محل کھینچنا، جس سے حروف کے بدل جانے کا خوف ہو، اور اذان کے الفاظ میں اتنا زیادہ اتار چڑھاؤ کرنا جس سے موسیقی اور گانے کا انداز پیدا ہوجائے، جائز نہیں ہے، البتہ بغیر ترنم کے آواز میں خوب صورتی پیدا کرنے کے لیے اعتدال کے ساتھ الفاظ کو لمبا کرنے میں حرج نہیں۔لما في التنویر مع الدر:
’’(ولا لحن فیہ)أي: تغني بغیر کلماتہ، فإنہ لا یحل فعلہ وسماعہ کالتغني بالقرآن وبلا تغییر حسن‘‘.
’’(قولہ:بغیر کلماتہ) أي: بزیادۃ حرکۃ أو حرف أو مد أو غیرھا في الأوائل والأواخر، قھستاني.
(قولہ: وبلا تغییر حسن) أي: والتغني بل تغییر حسن، فإن تحسین الصوت مطلوب، ولا تلازم بینھما، بحر وفتح‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ٢/ ٦٥:رشیدیۃ).
وفي بدائع الصنائع:
’’ومنھا: ترک التلحین في الأذان؛ لما روي أن رجلا جاء إلی ابن عمر رضي اللہ عنھما فقال: إني أحبک في اللہ تعالی، فقال ابن عمر رضي اللہ عنہما: إني أبغضک في اللہ تعالی، فقال: لم؟ قال: لأنہ بلغني أنک تغني في أذانک، یعني: التلحین‘‘.(کتاب الصلاۃ، فصل في بیان سنن الأذان، ١/ ٦٤٤:رشیدیۃ).
وفي حاشیۃ الطحطاوي:
’’وقیل بتطویل الکلمات.........وکل ذلک مطلوب في الأذان، فیطول الکلمات بدون تغن وتطریب کما في العنایۃ‘‘.(کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ص: ١٩٦:رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/55