اجیر خاص کا اپنی ڈیوٹی کسی اور کے حوالے کرنا

Darul Ifta

اجیر خاص کا اپنی ڈیوٹی کسی اور کے حوالے کرنا

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی سرکاری ادارے میں چند ملازمین متعین ہیں لیکن وہ اپنی جگہ کسی اور کو کچھ تنخواہ دے کر ان سےڈیوٹی کرارہے ہیں ،کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟ اور جو تنخواہ وہ خود وصول کررہے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

شریعت مطہرہ میں کسی کام کے لیے متعین سرکاری ملازم اجیر خاص کی حیثیت رکھتا ہے اور مقررہ مدت میں مفوضہ ذمہ داری کے لیے اپنے آپ کو حوالہ کرنے پر تنخواہ کا مستحق ٹھہرتا ہے، لہذا اس کو یہ اختیار نہیں کہ وہ ادارے کی اجازت کے بغیر اپنی جگہ کسی اور کو ڈیوٹی پر مقرر کرے۔
صورت مسئولہ میں کسی ملازم کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ اپنی جگہ کسی اور شخص سے ڈیوٹی کرواکر تنخواہ خود وصول کرے۔
لما في الہدایۃ:
’’قال: والأجیر الخاص الذي یستحق الأجرۃ بتسلیم نفسہا في المدۃ وإن لم یعمل کمن استؤجر شہرا للخدمۃ أو لرعي الغنم وإنما سمي أجیر وحد، لأنہ لا یمکنہ أن یعمل لغیرہ لأن منافعہ في المدۃ صارت مستحقۃ لہ والأجر مقابل بالمنافع، ولہذا یبقی الأجر مستحقا، وإن نقص العمل‘‘.(کتاب الإجارۃ: ٣/ ٢٩٩: رحمانیۃ)
وفي فتح القدیر:
’’قال: (وإذا شرط علی الصانع أن یعمل بنفسہ لیس لہ أن یستعمل غیرہ) لأن المعقود علیہ العمل في محل بعینہ فیستحق عینہ کالمنفعۃ في محل بعین (وإن أطلق لہ العمل فلہ أن یستأجر من یعملہ)؛ لأن المستحق عمل في ذمتہ، ویمکن إیفاؤہ بنفسہ وبالاستعانۃ بغیرہ بمنزلۃ إیفاء الدین‘‘.(کتاب الإجارۃ: ٩/ ٧٨: رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی(فتویٰ نمبر:174/34)

 

footer