کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص سفر کرتا ہے اور اس کے پاس بیس کلو سے زائد سامان ہے اور ائیرلائن صرف بیس کلو کی اجازت دیتی ہے اور اس سے زائد پر فی کلو اجرت اور کرایہ لیتی ہے، لیکن بعض افراد تعلقات کی بنیاد پر بہت ساسامان بغیر کرائے کے لے جاتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟جب کہ اس سے براہِ راست ائیر لائن متاثر ہوتی ہے، تو آیا اس کا اس طرح تجارت کرنا شرعاً درست ہے؟ اگر ایسا کرنا نا جائز ہے، تو اس تجارت سے حاصل شدہ آمدنی کا حکم کیا ہے؟
جو لوگ بیس کلو سے زائد سامان لے کر جاتے ہیں، ان کو زائد سامان کا کرایہ دینا لازم اور ضروری ہے ، ورنہ عدم ادائیگی کی صورت میں یہ ان کے ذمہ واجب الأداء رہے گا او رجب تک وہ ائیر لائن کے پاس جمع نہیں کراتے گناہ گار ہوں گے، اس طرح کمپنی کے وہ ملازم جو اس کام میں ان کی معاونت کرتے ہیں ، جب کہ ائیر لائن کی طرف سے ان کو اس کی اجازت نہیں، تو وہ سخت گناہ گار اور خائن ہیں،لیکن اپنے سامانِ تجارت سے حاصل شدہ منافع اور سامانِ تجارت میں حرمت نہیں آتی، اس لیے کہ سامان تو اس کی اپنی ملکیت ہے، صرف اس کو لے جانے کے لیے طریقہ غلط اختیار کیا گیا، لہٰذا اس طریقہ کے اختیار کرنے کا گناہ ہو گا اور اتنا کرایہ اس کے ذمہ واجب الأداء رہے گا۔
''عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:من حمل علینا السلاح، فلیس منا ومن غشّنا، فلیس منا''.(الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان: ١/٧٠، قدیمي)
''لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ولا ولایتہ''.((الدر المختار،کتاب الغضب: ٦/٢٠٠، سعید)
''أکل المال بالباطل علی وجہین: أحدہما: أخذہ علی وجہ الظلم والسرقۃ والخیانۃ والغصب وما جری مجراہ، والآخر: أخذہ من جہۃ محظورۃ، نحو الثمار، وأجرۃ الغناء۔۔۔إلخ.(أحکام القرآن للجصاص، سورۃ البقرۃ، باب ما یحلہ حکم الحاکم وما لا یحلہ: ١/٣٤٤، قدیمي)
وقال تعالی: (ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان). (المائدۃ: ٢).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی