معاشرے پر دینی مدارس کے اثرات

idara letterhead universal2c

معاشرے پر دینی مدارس کے اثرات

شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان

الحمدلله معاشرے میں دینی مدارس کی خدمات اور زندگی کے مختلف شعبوں پراس کے ہمہ جہت اثرات بہت واضح طور سے محسوس کیے جاسکتے ہیں، ایک اسلامی معاشرہ جن قدروں او رجن روایات کی بنیاد پر قائم رہتا ہے، دینی مدارس ہی در حقیقت ان قدروں اور روایات کی حفاظت کے امین ہیں، ان کے اثرات کی فہرست پر ایک اجمالی نظریوں ڈالی جاسکتی ہے:

اسلامی معاشرے میں مساجد کا جو کردار ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں، ہر محلے کی مسجد عبادت گاہ کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا مرکز بھی ہوتی ہے، شریعت کی راہ نمائی، احکام اسلام کی تفصیل او راپنے شرعی مسائل کا حل معلوم کرنے کے لیے لوگ مسجد ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں، اس لیے مساجد میں ایسے ائمہ کا ہونا ضرور ی ہے جو پنج وقتہ نمازوں کی امامت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو شرعی مسائل اور ضروری دینی تعلیم و راہ نمائی کی بھی صلاحیت رکھتے ہوں، دینی مدارس ہی ایسے علما اورائمہ پیدا کرکے معاشرے کی اس اسلامی ضرورت کو پورا کر رہے ہیں، گلی گلی، بستی بستی میں آباد مسجدوں میں جاکر معاشرے پر دینی مدارس کے اس اثر کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

معاشرے پر دینی مدارس کا دوسرا بڑا اور واضح اثر دین کی بنیادی اور ضروری تعلیم کو باقی رکھنا او رعام کرنا ہے، آج ایک عام مسلمان دین کی بنیادی اور ضروری تعلیم سے اگر آپ کو آراستہ نظر آئے گا تو یہ دینی مدار س ہی کے صالح آثار اور فیض کا نتیجہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے مدارس اورمکاتب کے ذریعے عام مسلمانوں کے بچوں کو دین کی ضروری او ربنیادی تعلیم کا مبارک سلسلہ معاشرے میں جاری رہتا ہے، جس میں نماز، صحیح طریقہ نماز، ناظرہ قرآن کریم، ضروری احکام ومسائل اورکلموں اور ماثور دعاؤں کی تعلیم داخل ہے اور الحمدلله شہر شہر، گاؤں گاؤں اور کچی پکی تمام مسجدوں میں واقع مکاتب قرآنیہ، یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

معاشرے پر دینی مدارس کا تیسرا بڑا اور واضح اثر آپ کو ان علماء کی صورت میں نظر آئے گا جو قرآن وحدیث اور اسلامی علوم میں مضبوط صلاحیت اور قابل رشک مہارت رکھتے ہیں، جن کے علم وعمل، تفقہ، دینی بصیرت اور شریعت کی صحیح راہ نمائی پر لوگوں کو بھر پور اعتماد ہے، اسلامی علوم کے صحیح محافظ یہ علماء دینی مدارس ہی کی خدمات کا نتیجہ ہیں۔

پاکیزگی نفس او رانسانی باطن کی اصلاح کے لیے معاشرے میں جتنی بھی صحیح او رقابل قدر مفید مساعی خانقاہوں اور تربیت گاہوں کی صورت میں معاشرے کے اندرجاری ہیں تقریباً وہ سب ہی دینی مدارس کے فیض کا نتیجہ ہیں، اسلامی اخلاق وصفات سے آراستگی اور رذائل وبری خصلتوں سے انسانی نفس کی پاکیزگی کے لیے کئی بزرگوں نے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی ہیں اور الحمدلله ان مساعی کے اثرات معاشرے میں دیکھے جاسکتے ہیں، دنیا کے جھمیلوں میں گھرے ہوئے کئی لوگوں کی زندگی میں خوش گوار دینی انقلاب آجاتا ہے، تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ فلاں بزرگ یا فلاں خانقاہ سے وابستگی کے بعد زندگی بدل گئی۔ داڑھی رکھ لی گئی، پردہ اور ترک منکرات کا اہتمام ہونے لگا او راحکام شرع کی پابندی شروع کردی گئی، اس طرح ٹھیٹھ قسم کے دنیا دار لوگوں کا رُخ بدل جاتا ہے اور دین کی طرف ان کی توجہ مبذول ہو جاتی ہے۔ یہ مصلحین ان ہی دینی مدار س کے بلا واسطہ یا بالواسطہ فیض یافتہ ہوتے ہیں۔

دعوت وتبلیغ کا جو کام مختلف انداز واور مختلف طریقوں سے ہو رہا ہے، وہ بھی دینی مدارس کے آثار میں سے ہے، صرف ” تبلیغی جماعت“ کے ذریعے اس وقت الله جل شانہ وسیع پیمانے پر اسلام کی دعوت وتبلیغ کا جو کام لے رہے ہیں وہ ہر ایک کے مشاہدے میں ہے، دنیا کے ہر خطے میں اس کے اثرات پہنچے ہوئے ہیں اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا الیاس رحمة الله علیہ او رجماعت کو مبارک تحریری سرمایہ فراہم کرنے والے شیخ الحدیث حضرت مولانازکریا رحمہ الله اور مولانا یوسف رحمہ الله کسی کالج یا یونی ورسٹی کے گریجویٹ نہیں تھے، بلکہ دینی مدارس ہی کے پروردہ اور فیض یافتہ تھے۔

تحریر اور تصنیف کے ذریعے سے دعوت وتبلیغ کا جو مؤثر کام ہو رہا ہے، اس میں بھی دینی مدارس کا ناقابل فراموش کردار ہے، ملک میں واقع بڑے او راہم مدارس میں سے اکثر سے مختلف زبانوں میں دینی رسائل، ہفت روزے ، ماہنامے اور مجلات کی اشاعت کا سلسلہ جار ی ہے ، صرف ہمارے جامعہ فاروقیہ سے بحمدالله چار زبانوں (اردو، انگریزی، سندھی اورعربی) میں ماہنامہ ” الفاروق“ نکلتا ہے، اس کے علاوہ دینی مدارس میں تصنیف وتالیف کا شعبہ بھی الحمدلله فعال کردارا داکرہا ہے، قرآن وحدیث اوراسلامی موضوعات پر مختلف زبانوں میں ٹھوس او رتحقیقی کتابیں شائع ہو رہی ہیں، کسی بھی کتب خانہ میں جاکر اس کا مشاہدہ کیا جاسکتاہے، ایک اندازے کے مطابق گزشتہ نصف صدی میں دینی مدارس سے مختلف زبانوں میں نکلنے والے مجلات او رکتابوں کی تالیف کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے اور الحمدلله یہ سلسلہ نہ صرف جاری ہے، بلکہ روز بروز اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

گزشتہ دو دہائیوں سے جہادی تحریکوں کی جو مبارک لہر اٹھی ہے، اس نے ایک طویل عرصے سے چھائے ہوئے جمود کی فضا میں حرکت پیدا کی ہے، ان تحریکوں کو بنیادی ایندھن دینی مدارس ہی سے فراہم ہو رہا ہے، چناں چہ جہاد افغانستان میں علماء اور دینی مدارس کا جو کردار رہا ہے، وہ محتاج وضاحت نہیں، افغانستان میں موجودہ طالبان حکومت کا قیام اس حقیقت پر شاہد ہے اور یہ طالبان انہی دینی مدارس کے فیض یافتہ ہیں۔

اسلام کے صحیح عقائد اور منہج سلف کی حفاظت اورعام مسلمانوں میں چار سو پھیلائے گئے باطل نظریات اور غلط عقائد سے بچانا بھی دینی مدارس کی اہم خدمات اور احسانات میں سے ہے۔

ہمارا یہ دور، جو درحقیقت فتنوں ، نئے پُرکشش او رباطل نظریات کے ہجوم کا دور ہے، اس میں ان فتنوں کا تعاقب کرنے،عام مسلمانوں کو ان فتنوں سے آگاہ کرنے او ران کے ایمان کو باطل نظریات کی آلودگی سے بچانے میں دینی مدارس نے جو کردار ادا کیا ہے، وہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، چناں چہ فتنہٴ قادیانیت، فتنہ پرویزیت، فتنہٴ جدیدیت، فتنہٴ لبرل ازم اور اس طرح کے دوسرے فتنوں کا تعاقب کرنے اور مسلمانوں کو ان سے بچانے میں دینی مدارس نے بڑا روشن کردار ادا کیا او راسلام کے صحیح عقائد اور سلف صالحین کے مذہب کی حفاظت کا فریضہ بخوبی انجام دیا اورالحمدلله اس طرح کے تمام فتنے تھوڑا بہت عروج پانے کے بعد مرتے چلے گئے۔

اسلامی تہذیب وثقافت اور اسلامی تشخص کے بقا کی خاموش جنگ بھی دینی مدارس لڑ رہے ہیں، اس وقت پاکستانی معاشرے میں اگر اسلامی تشخص کی کچھ جھلک دکھائی دیتی ہے تو یہ دینی مدارس ہی کا فیض واثر ہے، اسلامی تشخص اور اسلامی تہذیب پر فرنگیوں کا حملہ اس وقت ایک بڑا فتنہ ہے او را س حملے میں شکست کھا کر کئی اسلامی ممالک اپنا اسلامی تشخص کھو بیٹھے ہیں، لیکن الحمدلله برصغیر میں دینی مدارس اس حملے کا خاموش مقابلہ کر رہے ہیں، یہاں پڑھنے والوں اور یہاں سے تعلیمی تعلق رکھنے والوں کی وضع قطع ، رہن سہن، بودوباش اور طرزِ زندگی اسلامی تعلیم کے مزاج کے مطابق ہوتا ہے او راس میں اسلامی تہذیب وتشخص نمایاں نظر آتا ہے او راسی کے مطابق ان کی تربیت پر توجہ دی جاتی ہے۔

معاشرے پر دینی مدارس کے یہ چند آثار ایک سرسری نظر میں جمع کیے گئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے دینی مدارس کا وجود الله کی ایک بڑی نعمت اور رحمت ہے، الله جل شانہ ہمیں اس کی قدردانی اوراس پر شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دشمنوں کے شر سے ان مدارس کی حفاظت فرمائے۔ آمین!