مسجد ۔۔ اُمت مسلمہ کے نشاط اور روحانی وفکری راہ نمائی کا مرکز

مسجد اُمت مسلمہ کے نشاط
اور روحانی وفکری راہ نمائی کا مرکز

محدث العصرحضرت مولانا سید محمدیوسف بنوری

محدث العصر حضرت بنوری رحمہ الله نے یہ وقیع مقالہ رابطہ عالم اسلامی کی طرف سے منعقد کی گئی کانفرنس ”مؤتمر رسالة المسجد“ کے لیے عربی زبان میں تحریر فرمایا تھا، یہ کانفرنس رمضان المبارک1395ھ مطابق ستمبر1975ء میں پانچ روز جاری رہی۔ موضوع کی مناسبت سے حضرت بنوری رحمہ الله نے اس مقالے میں مسجد کی اہمیت وفضیلت کے ساتھ ساتھ امام وخطیب کی ذمہ داری کو بھی اُجاگر فرمایا۔ عنوان کی اہمیت کے پیش نظر اس مقالے کا اردو ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔

الحمدلله الذی جعل المساجد لإعلاء کلمةِ الله وإقامةِ التوحید، والصلاة والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبیین، الذی بنی المساجد أساسا لفلاحٍ وخیر وإرشاد العبید، وعلی آلہ وصحبہ الذین شیدوا معالم التوحید، ورفعوا رأیات ِمجد الإسلام؛ فخاب کل جبار عنید ، أمابعد:
شریعت ِ اسلامیہ کایہ حسن ہے کہ اس کا پیش کردہ ہر نظام جس مرتب انداز پر اُستوار ہے، وہ خوبی وکمال کی اتنی نوعیتیں اپنے اندر سمویا ہوا ہے کہ انسانی عقل اس کے پیش کردہ نظام سے بہتر او رمکمل نظام کا تصور بھی نہیں کرسکتی، پس پنجگانہ نمازیں جو اُمت پر روزانہ فرض ہیں، بلاشبہ ایسی عبادت ہے جو خالص الله کی رضا کے لیے ہے۔ ان نمازوں کے مکمل ثمرات اور عمدہ برکات عظیم اجروثواب کی صورت میں تو جنت میں ہی ملیں گی، جہاں کی نعمتیں بے مثال وبے نظیر ہیں۔ ہر نماز کے لیے اذان جیسے عظیم الشان مسنون عمل کے ذریعے لوگوں کو جمع کرنے کا حسین طریقہ مقرر کیا گیا، پھر ان نمازوں کے لیے خاص جگہیں ہیں، جن کا نام مساجد رکھا گیا۔ یومیہ پانچ مرتبہ لوگوں کا اس طرح جمع ہونا جہاں اُمت ِ مسلمہ کے روحانی اجتماع کا باعث بنا، وہیں اس کے ذریعے باہمی تعارف، الفت ومحبت اور افرادِ اُمت کو ایک دوسرے سے قریب ہونے کا موقع بھی فراہم کیا گیا۔

پھر محلے کی مسجد میں ہونے والے اس پنج وقتہ اجتماع کے دائرہ کو جامع مسجد کے ذریعے مزید وسعت دی گئی۔ شکرانے اور خوشی کے دو تہواروں یعنی عید الفطر اور عید الاضحی کے لیے کھلے میدان میں باجماعت نماز کا اجتماع مقررکرکے اس دائرے کو مزید کشادہ کیا گیا اور پھر ان تمام اجتماعات سے بڑھ کر حج بیت الله کا اجتماع مقرر کیا گیا۔ اگر امت ِ مسلمہ کی جانب سے کماحقہ قدردانی ہو تو شریعت کا عطا کردہ ہر نظام مسلمانوں میں دینی، اجتماعی اور ثقافتی روح بیدار کرنے کا بہترین ذریعہ ہے او راہل اسلام کو قدر دانی پر آمادہ کرنا چنداں مشکل نہیں۔ یہ مقصد ترغیب وترہیب، وعظ ونصیحت اور قدر دانی کرنے والوں کے اجر عظیم کا بار بارتذکرہ کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے اوراس طرح شوق دلا کر اگر لوگوں کو عمل پر آمادہ کیا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ جو شخص ان حقائق کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہو او ربلندکردار کا طالب ہو، وہ اُسے جاننے کے بعد بھی احکام اسلام کی پاس داری نہ کرے۔ جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے لیے ان بابرکت مساجد کا نظام وہ نظام ہے کہ انسانی عقل اس سے ارفع او ربہتر نظام کو سوچ ہی نہیں سکتی۔ اس نظام کی مندرجہ ذیل بنیادی خصوصیات ملاحظہ کیجیے:

توحید، رسالت، آخرت او رنماز کی طرف دعوت
ایک شخص ایک سے زائد مرتبہ الله کی عظمت وجلالت او رالله کی توحید بیان کرتا ہے او رحضور صلی الله علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کا اعلان کرتا ہے، پھر لوگوں کو نماز کی دعوت دیتا ہے، جو ہر قسم کی ہدایت او ربھلائی کا منبع ہے، پھر اسی طرح اُخروی کا م یابی کی دعوت بھی دیتا ہے اور بقول علامہ راغب اصفہانی کے ”جس کام یابی کی بقا کو فنا کا، جہاں کی مال داری کو فقر کا او رجہاں ملنے والی عزت کو ذلت کا کوئی اندیشہ نہیں، وہاں کا علم ہر جہل سے مبرا ہے۔“ (المفردات في غریب القرآن، مادہ فلح، ص:385، الطبعة المیمنیة)

اس پر مزید اضافہ کیجیے کہ وہاں کی راحت میں تکان کا گزر نہیں۔ اس جامع اور انوکھی دعوت کو دیکھیے، پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس آواز کو مسلمانوں کے گوش گزار کر نے کے لیے منارا اور منبر جیسے وسائل کا انتخاب کیا گیا ،جن میں آج کی سائنسی پیش رفت کے بعد لاؤڈ اسپیکر اور مائیک کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ اس اہمیت کے ساتھ مسجد میں آنے کی دعوت خود ایک عجیب شان رکھتی ہے۔

مسجد کی اہمیت قرآن کریم کی روشنی میں
قرآن کریم کی وہ آیات جن کا مسجد اور اس کے بنیادی اہداف ومقاصد کے بیان سے تعلق ہے، وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مساجد توحید خداوندی او راسلام کی دعوت کے مراکز ہیں اور دین میں اخلاص پیدا کرنے کا سرچشمہ ہیں، نیزان کی آبادی الله کے ذکر، نماز او رعبادت سے ہوتی ہے، باری جل شانہ کا ارشاد ہے :﴿وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّہِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّہِ أَحَداً﴾․(الجن:18)

”اور یہ کہ مسجدیں الله کی یاد کے واسطے ہیں، سو مت پکارو الله کے ساتھ کسی کو۔“ (ترجمہ شیخ الہند)

یہ آیت مسجد میں توحید کا پر چار کرنے او رمساجد کو ہر نوع کے شرک سے دور رکھنے کی ہدایت کرتی ہے۔ باری جل شانہ کا ایک اور فرمان ہے:﴿وَأَقِیْمُواْ وُجُوہَکُمْ عِندَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن﴾․ (الاعراف:29)

”اور سیدھے کرو اپنے منھ ہر نماز کے وقت او رپکارو اس کو خالص اس کے فرماں بردار ہو کر۔“ (ترجمہ شیخ الہند)

یہ ارشاد مسجد میں اخلاص کے ساتھ عبادت کرنے او راخلاص کے منافی ہر عمل سے بچنے کی ہدایت دیتا ہے۔ باری جل شانہ  کا ایک اور فرمان ہے:﴿فِیْ بُیُوتٍ أَذِنَ اللَّہُ أَن تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہُ﴾․(النور:36)

”ان گھروں میں کہ الله نے حکم دیا ان کو بلندکرنے کا۔“ (ترجمہ شیخ الہند)

جمہور مفسرین کی رائے کے مطابق یہ آیت مساجد کے مقاصد کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

مسجد کے فضائل واہمیت احادیث رسول کی روشنی میں
مزید براں فضائل پر نظر ڈالیں، مساجد کی طرف پیش قدمی کے لیے اُٹھنے والے ہر قدم کے بدلے ایک درجے کی بلندی اور ایک خطا کی معافی کا وعدہ کیا گیا، ہر صبح وشام مسجد کی طرف جانے کے بدلے جنت میں صبح وشام کی خاص مہمان نوازی کا اعلان کیا گیا، جیسا کہ صحیح حدیث میں منقول ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص مسجد کی طرف صبح کے وقت یا شام کے وقت جاتا ہے، الله جل شانہ اس کی جنت میں ہر صبح اور ہر شام مہمان نوازی فرمائیں گے۔ (صحیح البخاری، کتاب الصلوٰة، باب فضل من خرج إلی المسجد ومن راح:1/91، قدیمی)

اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت کے مطابق جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تا ہے تو جب تک وہ اپنے مصلیٰ پر باوضو ہے، فرشتے اس کے لیے یوں دعا کرتے رہتے ہیں:”اے الله! اس کی مغفرت فرما، اے الله! اس پر رحم فرما۔“(صحیح البخاری، کتاب الصلوٰة:1/90، قدیمی)

آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”جب تم جنت کے باغوں سے گزر و تو خوب چرو، سوال کیا گیا کہ : جنت کے باغ کیا ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: مساجد۔“(سنن الترمذي، أبواب الدعوات، باب:2/91، قدیمی)

اسی طرح مساجد کی تقدیس و تعظیم، اسلام میں مساجد کی بلند شان او رمسجد میں داخل ہونے والے شخص کے لیے ثواب اور اجر ِ عظیم کی بشارتوں کے سلسلے میں کئی روایات منقول ہیں۔

مسجد، کتاب وسنت کی تعلیم وتربیت کا مرکز
اسلام کی عظیم الشان تاریخ ہمیں مسجد نبوی میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی حین حیات قائم ہونے والے دینی تعلیم کے حلقوں کا پتہ دیتی ہے۔ یہ تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ فقرا اصحابِ صفہ رضی الله عنہم حضور صلی الله علیہ وسلم کے کلام مقدس کو سننے اور یاد کرنے کے لیے جمع ہونے والا پہلا قافلہ علم تھا۔ یہ حضرات مسجد نبوی اور صفہ ہی میں رہتے، تاکہ قرآن کی کوئی آیت جو بصورت َ وحی آپ صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہو یا آپ صلی الله علیہ وسلم کا اپنا کوئی فرمان گرامی سننے سے رہ نہ جائے۔ ان میں وہ قرائے کرام بھی تھے جنہیں بئر معونہ پر رعل، ذکوان اور عصیہ نامی قبائل کے افراد نے دھوکہ سے شہید کیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان قبائل کے خلاف ایک مہینے تک فجر کی نماز میں قنوت ِ نازلہ کے ذریعے بددعا فرمائی۔ انہی اصحاب صفہ رضی الله عنہم میں وہ لوگ بھی تھی جن کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ : ” میں نے اصحاب صفہ رضی الله عنہم میں سے ستر افراد ایسے دیکھے ہیں کہ ان میں سے کسی کے پاس تن ڈھانکنے کے لیے مکمل کپڑا نہ ہوتا تھا یا ازار ہوتی یا بڑی چادر ہوتی جس کو گردن پر باندھ لیتے، کسی کی یہ چادر نصف پنڈلی تک پہنچتی، کسی کی ٹخنوں تک پہنچتی تو وہ اس چادر کو سمیٹ سمیٹ کر بیٹھ جاتے، مبادا ستر ظاہر ہو جائے۔“ (صحیح البخاری، کتاب الصلوٰة، باب نوم الرجال في المسجد:1/63 قدیمی)

انہی اصحاب صفہ رضی الله عنہم میں سے جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے شاگرد تھے، ایک انتہائی بامکمل اور باصلاحیت عبقری شخصیت حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی تھی، آپ رضی الله عنہ کا شمار حفاظِ حدیث صحابہ رضی الله عنہم میں ہوتا تھا۔ عہد نبوت کے صرف تین سالوں میں آپ رضی الله عنہ نے علوم حدیث کے وہ عظیم خزانے حاصل کیے جن کی کثرت نے ایک عالم کو انگشت بدنداں کر دیا، آپ رضی الله عنہ کی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کردہ احادیث جو ہم تک پہنچی ہیں ان کی تعداد پانچ ہزار تین سو چوہتر(5374) ہے، یہ ایک بڑی تعداد ہے اور ”صحیح بخاری“ کی مکررات کو حذف کرکے بقیہ روایات سے زیادہ ہے۔

صرف مسجد نبوی اور مسجد حرام ہی کیا، دنیا میں جہاں کہیں بصرہ، کوفہ، بغداد، شام وغیرہ ممالک فتح ہوئے تو وہاں مساجد کی تعمیر عمل میں آئی۔ یہ مساجد بھی درس وتدریس کے مراکز تھے، یہ مراکز بڑی بڑی جامع مساجد میں قائم تھے، گویا علم کے چشمے تھے جو اُبل پڑے تھے اور فراوانی سے بہہ رہے تھے۔ عراق کی فتح کے بعد جامع مسجد کوفہ سب سے پہلی مسجد تھی، جس کی بنیاد حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ نے رکھی تھی۔ یہ مسجد احادیث نبویہ کی تعلیم کا مرکز تھی، جہاں براء بن عازب رضی الله عنہ پہلے صحابی تھے، جنہوں نے احادیث نبویہ کی تعلیم شروع فرمائی ۔ اسی طرح بعد کے ادوار میں بھی مساجد دین کی درس گاہیں ہی ہوا کرتی تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت قاہرہ کی جامع ازہر، تیونس کی جامعہ زیتونہ اور اُندلس کی جامعہ قرطبہ کو حاصل ہوئی۔ ان کے علاوہ بھی کئی ایسی جامع مساجد تھیں جو کہ علوم اسلامیہ کی باقاعدہ یونی ورسٹیاں تھیں، جن سے علم کے چشمے جار ی تھے، جن سے نکلنے والی نہریں کرہٴ ارض کے مختلف گوشوں میں پھیل چکی تھیں اوران نہروں سے چھوٹے بڑے سبھی اہل علم مستفید ہو رہے تھے۔ ان تاریخی روایات کو مدنظر رکھ کر یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ اسلامی سلطنت وسطوت کے زمانے میں عرب وعجم کے جس شہر میں بھی کوئی مسجد قائم ہوئی، وہ کتاب وسنت کی تعلیم کا مرکز بھی رہی ہے۔

ان مبارک تاریخی نقوش کی روشنی میں اب ہم قارئین وحاضرین، ائمہ وخطبا کی خدمت میں مساجد کے لیے چند اصول وضوابط پیش کرتے ہیں، تاکہ پنج وقتہ نماز کے لیے مسجد میں آنے والا ہر شخص شریعت کے نظام ِ مساجد سے فائدہ اُٹھاسکے۔

امام مسجد کے اوصاف
ہر مسجد کے لیے ایک سمجھ دار، بیدار مغز، فاضل عالم دین بطور امام مقرر کیا جائے۔ جو نمازیوں کی اچھی طرح تربیت او رانہیں دینی تعلیم سے روشناس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ نیز یہ امام قرآن کریم کو درست تجوید کے ساتھ پڑھنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہو اور اچھے اخلاق سے بھی آراستہ ہو۔

امام درس قرآن کی تیاری کس طرح کرے؟
ہر امام کو چاہیے کہ وہ نماز ِ فجر کے بعد درس قرآن کا سلسلہ شروع کرے۔

جس میں نمازیوں کو قرآن کریم کے مطالب اس اسلوب سے ذہن نشین کروائے جو اُن کے فہم اور مستویٰ کے مطابق ہو۔

ایسی باتیں جو ان کے لیے کار آمد نہ ہوں، مثلاً: لغت، اعراب وترکیب کی باریکیاں یا بے فائدہ توجیہات وتاویلات، وغیرہ میں ہر گز نہ پڑے۔

بلکہ قرآن کریم کے اہم پہلوؤں پر اکتفا کرتے ہوئے قرآن کریم کے مطالب ومقاصد کو عمدہ اور نفع مندا سلوب کے ساتھ واضح کرے، کیوں کہ امت کے آخری لوگوں کی اصلاح کا بھی وہی طریقہ ہے جو طریقہ اوّل امت کی اصلاح کے لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اختیار فرمایا تھا۔

امام کو چاہیے کہ درس کے دوران آیات کے ترجمہ وتفسیر کی مناسبت سے نمازیوں کے عقائد کی درستگی اور ان کے معاملات کی اصلاح کی طرف بھی بھرپور توجہ کرے۔

درس کے لیے مختصر وقت مقرر کیا جائے، یہ وقت کم سے کم پندرہ منٹ اور زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ ہو، تاکہ عوام کو اُکتاہٹ نہ ہو اور درس میں شرکت کی پابندی ہو سکے، اس لیے کہ بہترین عمل وہی ہے جو ہمیشگی اور مستقل مزاجی سے کیا جائے، اگرچہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔

درسِ حدیث کا اہتمام اور اس کی تیاری
مناسب ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد درس حدیث کا اہتمام کیا جائے۔

درس ِ حدیث کے لیے عمدہ او رمفید کتب مثلاً: امام نووی رحمہ الله کی ”ریاض الصالحین“ یا امام منذری رحمہ الله کی ” الترغیب والترہیب“ کا انتخاب ہو۔

اس درس میں ان اختلافی مسائل کا تذکرہ، جس سے نمازیوں کو فکری تشویش لاحق ہو، نہ کیا جائے۔

درسِ حدیث کا بنیادی ہدف نمازیوں کی روحانی اصلاح اوران کے دل ودماغ کی پاکیزگی کی کوشش ہو۔

اس درس کا وقت کم ازکم آدھا گھنٹہ مقرر کیا جائے اور فجر کے بعد کا وقت اس کے لیے مناسب ہے، اس لیے کہ یہ فراغت وفرصت کا وقت ہوتا ہے۔

اس طرز پر تعلیمی سلسلے جاری رکھنے کی صورت میں ہر مسجد ایک دینی مدرسے کی صورت اختیار کر لے گی۔

عام فہم اسلامی فقہی احکام سے متعلق نصاب
ایک خاص نصاب مقرر کیا جائے، جس میں نماز، روزہ، زکوٰة، حج، وغیرہ بنیادی عبادات کے فقہی احکام کا انتخاب ہو۔
فجر کے علاوہ چاروں نمازوں میں سے کسی ایک نماز میں کم ازکم پانچ منٹ اس نصاب کی تعلیم کے لیے متعین کیے جائیں، تاکہ نمازیوں کو ان عبادات کے احکام سے بھی ایک گونہ واقفیت ہو جائے۔

خطبہٴ جمعہ اور تقریر کی تیاری
جامع مسجد جہاں جمعہ وعیدین کی نمازیں بھی ادا کی جاتی ہوں، وہاں کے خطیب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے خطبے میں عالمی اسلامی مسائل کو لے کر، اُمت مسلمہ کی حالیہ ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں بات کرے۔

اسی طرح خطیب کے لیے یہ بھی ضرور ی ہے کہ وہ اس تقریر کو اچھی طرح تیار کرے، ایسے الفاظ کا چناؤ کرے جو اصلاح ِ قلب کے لیے مؤثر اور مفید ہوں۔

نیز خطبہ معتدل انداز کا ہو، نہ اس قدر اختصار ہو کہ مقصود حاصل نہ ہو سکے، نہ موضوع سے ہٹ کر غیر ضروری باتوں کی تطویل ہو کہ سننے والے اُکتا ہی جائیں۔

یہ بھی خیال رہے کہتقریر میں ایسے اختلافی مسائل کو نہ چھیڑا جائے جو اُمت میں عرصہ دارز سے اختلافی ہی چلے آرہے ہیں۔

خطیب کو چاہیے کہ وہ اہمیت کے حامل فقہی احکام اور دین کے بنیادی مسائل کے بیان ہی پر اکتفا کرے۔

خطیب کی دعوت ایسی حکیمانہ ہو کہ سننے والوں کے دلوں کو چھو جائے۔

ساتھ ساتھ کتاب وسنت کے دلائل سے مؤید بھی ہو، تاکہ سامعین مطمئن رہیں اور یہ سمجھ سکیں کہ دین اسلام ہی وہ آسمانی مذہب ہے جو انسان کی نیک بختی اور سعادت کا ضامن ہے، یہی وہ دین فطرت ہے جس سے انسان کا بنایا ہوا کوئی نظام مستغنی نہیں ہوسکتا او رامریکی ویورپی تہذیب کی کجی او ربگاڑکی اصلاح صرف اور صرف صحیح اسلام اور شریعت ِ محمدیہ پر عمل کرنے ہی میں ہے۔ دین اسلام ہی سب سے بہتر دینی واقتصادی نظام ہے، جو فردوجماعت، مادی وروحانی تمام شعبہ جات کو حاوی ہے۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے خطیب ان موضوعات کا انتخاب کرے جو معاصر ضرورتوں میں سے اہمیت کے حامل ہوں۔

جمعہ کا خطبہٴ مسنونہ غیر عربی زبان میں بدعت اور فتنہ ہے
اگر سامعین عربی زبان جاننے والے نہ ہوں تو ان کے لیے مناسب یہ ہے کہ خطبہٴ جمعہ بلکہ اذان سے پہلے خطبے کے موضوع کو سامعین کی زبان میں بطور خلاصہ پیش کر دیا جائے۔ جمعے کا خطبہ صرف عربی زبان ہی میں دیا جائے، اس لیے کہ عہد نبو ی ہی سے اُمت کا یہ معمول رہا ہے کہ جمعہ وعیدین کے خطبے عربی زبان ہی میں دیے جاتے رہے ہیں، اس لیے کہ عربی زبان قرآن اور اسلام کی زبان ہے، غیر عربی زبان میں خطبہ کسی صورت مناسب نہیں، اس لیے کہ عہد صحابہ رضی الله عنہم میں فارس ا ورروم کے علاقے جب فتح ہوئے تھے، اس وقت بھی خطبہٴ جمعہ کی زبان عربی ہی رہی۔ اسی طرح تمام خطبات کی اصل روح باری عزاسمہ کا ذکر ہے،جہاں تک خطبے کے ذریعے وعظ ونصیحت کی بات ہے تووہ ثانوی چیز ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی پوشیدگی کے باعث بہت سے لوگوں کو یہ بات اچنبھی معلوم ہوتی ہے کہ سامعین کی زبان کے علاوہ کسی زبان میں خطبہ دیا جائے، حالاں کہ خطبہ ایک عبادت ہے، اس کی نوعیت ان عام خطبوں کی مانند نہیں جو عام محافل ومجالس میں سامعین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ بلکہ اگر لوگوں کے ا س تعجب کے دائرے کو وسیع کیا جائے تو یہ معاملہ صرف خطبے تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ یہ نماز تک وسیع ہو جائے گا، اس لیے کہ غیر عربی دان کے لیے وہ بھی ایک مختلف زبان میں مناجات ہو گی، اس طرح یہ فتنہ بڑھتا ہی رہے گا۔ امریکا ویورپ کے کئی ممالک میں یہ فتنہ پھیل گیا ہے، چناں چہ وہاں ائمہ سامعین ہی کی زبان میں خطبہ دیتے ہیں، یہ ایک بدعت ہے، جس کی پیروی کسی صورت نہیں کی جانی چاہیے، الله ہمیں اس فتنے سے محفوظ رکھے، بلکہ ہمارے علاقوں میں تو نماز کو اردو زبان میں ادا کرنے کا فتنہ پیدا ہوچکا ہے اور اہل علم اس فتنے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

ملازمت وتجارت پیشہ حضرات کو دین سے قریب کرنے کا ذریعہ
خلاصہ یہ ہے کہ اگر مساجد میں ان اصولوں کی رعایت رکھی جانے لگے تو ان بالغ نمازیوں کے لیے جو اپنی مصروفیات کی وجہ سے باقاعدہ مدارس میں پڑھ نہیں سکتے ، اسی طرح ان کاروبار پیشہ افراد کے لیے بھی جو بازاروں میں کاروبار میں مصروف رہتے ہیں، نیز اس ملازمت پیشہ طبقے کے لیے جو حکومتی اداروں میں ملازمت کے باعث فرصت نہیں پاتے، یہی مساجد دینی درس گاہیں ثابت ہوں گی۔ نوجوانانِ امت جن کا دین دار طبقے اور دینی تعلیمی اداروں سے تعلق ٹوٹ چکا ہے، ان کو دین اسلام کی روح سکھانے او رسمجھانے کے لیے یہ ایک بہترین طریقہ کار ہو گا۔
اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم عام گلی کوچوں اور بازاروں کے لیے لاؤڈاسپیکر وغیرہ جدید وسائل بھی استعمال کریں تو یہ نظام ان مردوں اور عورتوں کے لیے بھی جو گھروں ہی میں رہتے ہیں ( مسجدوں کی طرف رخ نہیں کرتے) بیک وقت اصلاح کے لیے مفید ہوسکتا ہے، تاکہ وہ بھی چند لمحوں پر محیط اس درس کی طرف راغب ہوں اور تربیت کا دائرہ بڑھتا ہوا ان عورتوں اور بچوں کو بھی شامل ہو جائے جو گھروں میں رہتے ہیں۔ خطیب کو چاہیے کہ اس کے لیے بھی خالص تربیتی موضوعات اختیار کرے ۔ اس طرح مساجد کا یہ نظام جدید آلات ِ نشرواشاعت کی مدد سے ایک عمدہ ترین، انتہائی نفع بخش اور تربیت کے تمام گوشوں کا بیک وقت احاطہ کیے ہوئے نظام کی صورت میں نمایاں ہو گا، لیکن بہرحال توفیق وانعام دینے والی ذات تو الله سبحانہ  وتعالیٰ ہی کی ہے۔

الغرض نمازوں کے اجتماعات کے ساتھ ساتھ یہ مساجد دراصل توحید کی طرف دعوت کا عنوان ہیں ، تبلیغ دین کا عنوان ہیں، احکام شریعت کی تعلیم کا عنوان ہیں اور فکری تربیت، قلبی اورروحانی اصلاح کا عنوان ہیں،جیسے کہ پچھے وقتوں میں یہی مساجد قضاء، افتاء اور عدالتی فیصلوں کا بھی عنوان ہو اکرتی تھیں۔

اخیر میں، میں رابطہ عالم اسلامی کے صدر او ران کے رفقائے کار کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ائمہ مساجد کی بے داری او ران کے منصب کی رفعت پر تنبیہ کے لیے ہدایات پیش کرنے کی غرض سے اس مجلس کا انعقاد کیا، بلاشبہ اگر اسلامی ممالک میں مساجد کا یہ نظام واقعی متحرک اور فعال ہو جائے تو یہ ایک بہترین کاوش ثابت ہوگی۔
الله جل شانہ سے دعا ہے کہ وہ رابطہ عالم اسلامی کے ارباب حل وعقد خصوصاً محترم صدر رابطہ عالم اسلامی کو اسلام ،ملت اسلامیہ، علم اور اہل علم کی اس سے بڑھ کر خدمت کی توفیق مرحمت فرمائے اور مجلس رابطہ عالم اسلامی کو اسلام واہل اسلام کے لیے خیر وبھلائی کی نوید بنائے۔ الله ہی دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے والا ہے۔