دینی مدارس کی لازوال خدمات!

دینی مدارس کی لازوال خدمات!

محترم ربیع احمد بن اقبال احمد

تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو صفحات بتائیں گے کہ جب 1857ء کے بعد انگریز حکومت نے پورا نظام تلپٹ کر دیا تھا، دینی مدارس ختم کر دیے تھے، نظام تعلیم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا اور ہر چیز الٹ پلٹ کر رکھ دی تھی تو اس وقت دو طبقے جو ملت کو سہارا دینے کے لیے سامنے آئے تھے اور انہوں نے ملت کو سہارا دیا تھا۔ دونوں نے الگ الگ شعبوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔ ان میں سے ایک طبقہ علماء کا تھا، جس نے قرآن وسنت کی تعلیم کو باقی رکھنے کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی اور اسلامی ثقافت او رتہذیب کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا۔

انہوں نے اس کام کو سر انجام دینے کے لیے اور اس مقصد کے لیے عوام سے تعاون کے لیے رجوع کیا اور کائنات کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک مشکل کام کسی سے مانگنا بھی اس دین کے لیے قبول کیا، اور سرکاری تعاون سے بے نیاز ہو کر عوامی تعاون کے ساتھ قرآن وسنت کی تعلیم کو باقی رکھنے اوراسلامی تہذیب وثقافت کے آثار کو بچانے کے لیے کردار ادا کیا۔

دوسرا طبقہ وہ سامنے آیا جس نے قوم کو جدید علوم سے بہرہ ور کرنے کی ذمہ داری قبول کی، سائنس او رٹیکنالوجی پڑھانے کا وعدہ کیا، انگریزی اور جدید زبانوں کی تعلیم اپنے ذمے لی۔ اس طبقہ کو اس کام کے لیے ریاستی مشینری کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی او رانہوں نے قومی خزانے کے کھربوں روپے خرچ کر ڈالے۔ اس طبقہ کو سرکاری وسائل میسر تھے، ریاستی تعاون پورا پورا حاصل رہا۔ اب اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ بات ہر عقل رکھنے والے پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ اس طبقہ نے، جن کو ریاست کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی، ملت کو کیا دیا؟ اور مدارس جس کو ریاست کی پشت پناہی تو کیا حاصل، بلکہ الٹا ریاستی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ریاست کی طرف سے ہر قسم کی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے ملت کو کیا دیا؟

آج اگر ملک کے کسی گوشے میں دینی تعلیم کا انتظام نہیں ہے، قرآن یا سنت کی راہ نمائی لوگوں کو میسر نہیں ہے اور اسلام کی آواز نہیں لگ رہی تو مدارس مجرم ہیں۔ مدارس نے جوذمہ داری اٹھائی اس کو پورا نبھایا اور ملت کو دین دیا۔ امت کی تعلیمی حالت کو پروان چڑھانے، قوم وملت کو عزت وشرافت اور باوقار زندگی عطا کرنے اور ملک کی تعمیر وترقی کو فروغ دینے میں مدارس ِ دینیہ نے اَن مٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔ اگر امت کو مساجد میں نماز پڑھانے کے لیے امام کی ضرورت ہے تو امام میسر کیا، اگر امت کو قرآن کریم کی تعلیم کے لیے قراء کی ضرورت ہے تو مدارس نے امت کو قراء فراہم کیے، دینی راہ نمائی دینے کے لیے علماء سے ملک کا کوئی گوشہ خالی بھی نہیں؟ اس سے اگلی بات کہ مدارس نے کیا دیا؟ اس تناظر میں ان دینی مدارس کی اگر معاشرتی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ مدارس نے ملت کو کیا کچھ دیا ہے۔

٭…مدارس ملک کے لاکھوں نادار افراد کو نہ صرف تعلیم سے بہرہ ور کرتے ہیں، بلکہ ان کی ضروریات ،مثلاً خوراک، رہائش، علاج اور کتابوں وغیرہ کی کفالت بھی کرتے ہیں۔

٭…مدارس معاشرہ میں بنیادی تعلیم اور خواندگی کے تناسب میں معقول اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔

٭…مدارس عام مسلمانوں کو عبادات، دینی راہ نمائی او رمذہبی تعلیم کے لیے رجال کار فراہم کرتے ہیں۔

٭…مدارس عام مسلمانوں کے عقائد ، عبادات، اخلاق اور مذہبی کردار کا تحفظ کرتے ہیں اور دین کے ساتھ ان کا عملی رشتہ قائم رکھے ہوئے ہیں۔

٭…مدارس اسلام کے خاندانی نظام اور کلچر وثقافت کی حفاظت کر رہے ہیں او رغیر اسلامی ثقافت وکلچر کی یلغار کے مقابلہ میں مسلمانوں کے لیے مضبوط حصار کی حیثیت رکھتے ہیں۔

٭…مدارس اسلامی عقائد واحکام کی اشاعت کر رہے ہیں اور ان کے خلاف غیر مسلم حلقوں کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات وشبہات کا جواب دیتے ہیں۔

مدارس اسلام کی بنیادی تعلیمات اور عقائد واحکام سے انحراف اور بغاوت کا مقابلہ کر رہے ہیں او رمسلمانوں کی ”راسخ العقیدگی“ کا تحفظ کر رہے ہیں۔

٭…مدارس مادہ پرستی، مفادات، خود غرضی اور نفسا نفسی کے اس دور میں قناعت، ایثار اور سادگی کی روحانی اقدار کو مسلمانوں کے ایک بہت بڑے حصے میں باقی رکھے ہوئے ہیں۔

٭…مدارس وحی الہٰی اور آسمانی تعلیمات کے مکمل اور محفوظ ذخیرہ کی نہ صرف حفاظت کر رہے ہیں، بلکہ سوسائٹی میں اس کی عملی تطبیق کا نمونہ بھی باقی رکھے ہوئے ہیں،تاکہ نسل انسانی کے وہ سلیم الفطرت لوگ، جو ”عقل خواہش“ کی مطلق العنانی کے تلخ او رتباہ کن معاشرتی نتائج کو محسوس کرتے ہیں او رجن کی تعدادمیں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے انہیں وحی الہٰی اور آسمانی تعلیمات کے حقیقی سرچشمہ تک رسائی میں کوئی دقت نہ ہو۔ اس طرح یہ مدارس صرف مسلمانوں کی ہی نہیں، بلکہ پوری نسل انسانی کی خدمت کر رہے ہیں او راس کی طرف سے فرض کفایہ ادا کرہے ہیں۔