خواتین کا رجال سازی میں کردار

خواتین کا رجال سازی میں کردار

مولانا عصمت الله نظامانی

ایک مشہور اور زبان زد مقولہ ہے کہ:ہر کام یاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہے۔ دور ِحاضر میں چاہے اسے لطیفے اور مزاح کا رنگ دیا جاتا ہو یا کسی اور تناظر میں ذکر کیا جاتا ہو، مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک حد تک یہ مقولہ درست ہے، خصوصاً اُمت ِمسلمہ کے علماء اور اکابرین ِ ملت کے حالات اور ان کی سوانحِ حیات کا مطالعہ کرنے سے مسلمان عفت مآب خواتین کے بارے میں یہ کہاوت پوری طرح صادق نظر آئے گی۔

بڑے بڑے فقہاء ومحدثین اور دیگر مسلمان زعماء کی رجال سازی میں خواتین کا اہم کردار نظر آئے گا، عورت کہیں ماں کے روپ میں، کہیں بہن یا بیٹی کی صورت میں اور کہیں شریکِ حیات کی شکل میں مرد کی شخصیت سازی کرتی پائی جائے گی۔ ماضی کی جن قابل ِ قدر ہستیوں پر مسلمان فخر کرتے ہیں اور غیروں کے سامنے ان کے بلند پایہ کارنامے بیان کرتے ہیں، اگر ان کی تعلیم وتربیت، کردار سازی، حوصلہ افزائی اور شخصیت نکھارنے کے سلسلے میں عورت کی کاوش وکوشش شامل ِحال نہ ہوتی تو شاید اُن میں سے کئی حضرات تاریخ کا ایک گم شدہ باب ہوجاتے اور ان کے نام لیوا نہ ہوتے۔ ذیل میں ہم مختصر طور پر خواتین کا رجال سازی میں کردار بیان کریں گے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے شوہر کی وفات کے بعد اکیلے ہی اپنے بیٹے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی تربیت پر خصوصی دھیان دیا تھا اور بڑی توجہ سے ان میں بہادری، شجاعت، تحمُّل وبردباری اور دیگر اعلیٰ صفات پیدا کرنے لیے جدوجہد کی تھی، چناں چہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو ان پر سختی بھی کرنا پڑتی اورکبھی تادیباً مارنے کی نوبت بھی آجاتی تھی۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا چچا نوفل یہ دیکھ کر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاکو ڈانٹتا کہ إنک لتضربینہ ضرب مبغضة یعنی تم بچے کو بالکل دشمنوں کی طرح مار رہی ہو، لیکن حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ان کو جواب دیتی کہ یہ سب اس کی تربیت کی وجہ سے ہے اور اشعار کہتیں، ایک مصرعہ حسبِ ذیل ہے:
من قال:إنّی ابغضہ فقد کذب وإنّما اضربہ لکی یلب
(الإصابة فی تمییز الصحابة لابن حجر:458/2 رقم الترجمة:2796 دار الکتب العلمیة، بیروت، ط:1415ھ)

ترجمہ:جس نے یہ کہا کہ میں اس سے بغض رکھتی ہوں، اس نے جھوٹ کہا، میں تو اس کو صرف اس وجہ سے مارتی ہوں کہ وہ عقل مند ہو۔

پھر آنے والے لوگوں نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی بہترین تربیت اور شخصیت سازی کا نتیجہ دیکھا کہ حضرت زبیربن عوام رضی اللہ عنہ نڈر مجاہد اور اسلام کے ایک سپاہی بن کے پوری زندگی دین ِحق کی سربلندی کے لیے جد وجہد کرتے رہے۔

مشہور ومعروف محدث، امیر المومنین فی الحدیث حضرت سفیان ثوری رحمة اللہ علیہ سے کون ناواقف ہوگا دورانِ طالب علمی ان کے مالی حالات کم زور تھے، اس لیے انہیں کسب ِمعاش کی فکر ہوئی، لیکن ان کی ماں نے انہیں فکر ِمعاش سے آزاد کرکے پڑھائی اور طلبِ علم کے لیے فارغ کردیا، چناں چہ وہ سوت کات کر اسے فروخت کرتیں اور اپنے بیٹے سفیان ثوری کی پرورش وکفالت کرتی تھیں، جیساکہ امام وکیع  فرماتے ہیں:

”قالت ام سفیان الثوری لسفیان:یا بنی،اطلب العلم وانا اکفیک من مغزلی․“(تاریخ جرجان للجرجاني: عالم الکتب، بیروت،ط:1407ھ1987م

ترجمہ:حضرت سفیان ثوری کی والدہ نے اپنے بیٹے سے کہا: اے میرے بیٹے!علم طلب کرو، میں تمہاری اپنے تکلہ (سوت کاتنے کا آلہ) کے ذریعے کفالت کروں گی۔

بلکہ وہ وقتاً فوقتاً حضرت سفیان ثوری  کو تحصیل ِ علم سے متعلق نصائح بھی کرتی رہتی تھیں، چناں چہ ایک مرتبہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

”یا بنی،إذا کتبت عشرة احرف، فانظر ہل تری نفسک زیادة فی مشیک وحلمک ووقارک، فإن لم یزدک فاعلم انہ لایضرک ولا ینفعک․“ (صفة الصفوة لابن الجوزی 189/3 دارالمعرفة، بیروت)

ترجمہ:اے میرے بیٹے!جب تم دس حروف سیکھ لو تو دیکھو کہ کیا تمہاری چال ڈھال، حلم وبردباری اور وقار میں اضافہ ہوا ہے؟ اگر کچھ زیادتی نہ ہوئی ہو تو جان لو کہ یہ علم نہ تمہیں نقصان پہنچائے گا اور نہ ہی نفع دے گا۔

ماں کی ایسی عمدہ پرورش اور تربیت کی وجہ سے حضرت سفیان ثوری امیر المومنین فی الحدیث اور اپنے عہد کے بے مثال محدث بنے۔

حضرت امام مالک بن انس رحمة اللہ علیہ ائمہ اربعہ میں سے ایک ہیں، ان کو علمِ حدیث اور فقہ دونوں میں بلند مقام حاصل تھا، جب انہوں نے اپنی والدہ کے پاس آکر طلبِ علم کے لیے جانے کی اجازت چاہی تو ان کی والدہ نے انہیں عمدہ کپڑے پہنائے، سر پر ٹوپی پہنا کر اس پرعمامہ باندھا اور پوری طرح تیار کرکے طلبِ علم کے لیے بھیجا۔(الدیباج المذہب فی معرفة اعیان المذہب للیعمری:98/1دار التراث للطبع والنشر، القاہرة)

اور یہ تیاری ایک دن کے لیے نہیں تھی، بلکہ امام مالک رحمة اللہ علیہ کی والدہ انہیں باقاعدگی سے تیار کرتی تھیں۔ اسی طرح طلبِ علم کے ساتھ ادب واخلاق کی تعلیم حاصل کرنے کی بھی انہیں ترغیب دیتی تھیں، چناں چہ امام مالک فرماتے ہیں:

”کانت امی تعممنی وتقول لی: اذہب إلٰی ربیعة، فتعلم من ادبہ قبل علمہ․“(ترتیب المدارک وتقریب المسالک للقاضی عیاض:130/1مطبعة القضالة،المحمدیة، المغرب)

ترجمہ:میری والدہ مجھ کو عمامہ باندھتی اورمجھ سے کہتی تھی کہ ربیعہ کے پاس جاکر ان کے علم سے پہلے ان کا ادب سیکھو۔

علامہ ابن حجر کی ہستی سے کون ناآشنا ہوگا؟! ان کی تالیفات، خصوصاً حدیث اور علومِ حدیث میں خدمات سے آج تک اہل ِ علم مستفید ہورہے ہیں۔ ان کی تربیت میں بھی ان کی بہن ست الرکب کا بڑا دخل تھا۔ حافظ ابن حجر کے بچپن میں ہی ان کے والدین کا انتقال ہوگیا تھا، چناں چہ ان کی بہن نے پہلے خود تعلیم حاصل کی اور مختلف علوم میں مہارت حاصل کی، اورپھر اپنے چھوٹے بھائی کی شخصیت سازی کی طرف متوجہ ہوئیں، حالاں کہ خود بھی کم عمر تھیں، جیساکہ علامہ ابن ِحجر ان کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:

”وکانت بی برّة، رفیقة، محسنة، جزاہا اللہ تعالیٰ عنی خیرًا، فلقد انتفعت بہا وبآدابہا مع صغر سنہا․“(المجمع الموسس للمعجم المفہرس لابن حجر:122/3)،دار المعرفة، بیروت)

ترجمہ:وہ میرے ساتھ نیکی واحسان کرنے والی ساتھی تھیں، (اللہ تعالیٰ میری طرف سے ان کو بہترین بدلہ عطا فرمائے) ان کی کم عمری کے باوجود میں نے ان سے اور ان کے آداب واخلاق سے بہت استفادہ کیا۔

اسی طرح علامہ ابن ِحجر ان کی بہت تعریف کیا کرتے تھے اور اس کو اپنی ماں کا درجہ دیتے تھے، جب کہ ان دونوں کی عمروں میں تقریباً تین سال کا ہی فرق تھا، چناں چہ وہ فرماتے ہیں:

”وکانت قارئة کاتبة اعجوبة فی الذکاء، وہی امی بعد امی․“(إنباء الغمر بابناء العمر لابن حجر (302/3، دار الکتب العلمیة،بیروت، ط:1406 ھ1986ء )

ترجمہ:وہ قاریہ، کاتبہ اور ذہانت میں عجوبہ روزگار تھیں، اور میری حقیقی ماں کے بعد میری ماں تھیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ مشاہرین ِ ملت اور اُمتِ مسلمہ کے اکابرین کے بلند مقام ومرتبے اور ان کی کام یابی وکام رانی کے پیچھے عفت مآب خواتین کا ہاتھ نظر آئے گا، پہلے خواتین اسلامی تعلیمات سے واقف اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتی تھیں، ان کو معلوم تھا کہ وہ ایک فرد کی نہیں، بلکہ ایک معاشرے کی تربیت اور شخصیت سازی کر رہی ہیں اور زمانے نے دیکھا کہ ان اکابرین میں سے ایک ایک فرد امت کا رہ نما وپیشوا بنا، لہٰذا خواتین کے رجال سازی میں کردار کو پیش ِنظر رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہیں ہوگا کہ:ہر کام یاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہے۔