نکاح میں دین دار عورت کا انتخاب

نکاح میں دین دار عورت کا انتخاب

مولانا محمد اسجد قاسمی

(الف) ”تنکح المرأة لأربع لمالھا ولحسبھا وجمالھا ولدینھا، فاظفر بذات الدین، تربت یداک“․ (بخاری)
ترجمہ:” عورت سے نکاح کرنے کی رغبت (عموماً) چار چیزوں کی بنا پر ہوتی ہے، دولت، خاندان ووجاہت، خوب صورتی اور دین داری، تم دین دار عورت کو اپنا مطلوب قرار دو، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں۔“

”الدنیا متاع، وخیر متاع الدنیا المرأة الصالحة“․ (مسلم)
ترجمہ:” پوری دنیا وقتی نفع پہنچانے والی چیز ہے اور دنیا کی نفع بخش چیزوں میں نیک او راچھی عورت سے زیادہ بہتر کوئی چیز نہیں۔“

تشریح… اسلام دین ِ فطرت ہے، اس میں انسان کے طبعی احساسات ورُحجانات کو جتنی اہمیت دی گئی ہے اس کی مثال کسی دوسرے قانون میں نہیں ملتی، حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی نے حجة الله البالغہ میں تحریر فرمایا: ”إن شھوة الفرج أعظم الشھوات وأرھقھا للقلب موقعة فی مھالک کثیرة“ (ص:312) انسان کی تمام خواہشات میں جنسی خواہش سب سے بڑھی ہوئی ہے، اس کی تسکین کے لیے بسا اوقات انسان دل کے ہاتھوں مجبو رہو کر بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اسی تقاضا کی تکمیل کے لیے شریعت ِ اسلام میں نکاح کا طریقہ مقرر کیا گیا اوراس کی تاکید وترغیب دلائی گئی ، بلکہ اس حکم کی تعمیل نہ کرنے پر وعید سنائی گئی، بعض صحابہٴ کرام نے تمام رات جاگنے، عبادت میں مشغول رہنے اورکبھی شادی نہ کرنے کا عہد کیا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انہیں مخاطب کرکے تہدیدی انداز میں فرمایا: ”أما والله إنی لاخشا کم لله، وأتقاکم لہ، ولکنی أصوم وأفطر وأصلی وأرقد و أتزوج النساء، فمن رغب عن سنتی فلیس منی․“ (بخاری) سن لو! میں تم میں سب سے زیادہ الله سے ڈرتا اور اس کی نافرمانی سے بچتا ہوں، اس کے باوجود میں کبھی ( نفلی) روزہ رکھتا ہوں، کبھی نہیں رکھتا، رات ( کے ایک حصہ ) میں نماز پڑھاتا ہوں اور ( بڑے حصہ میں ) سوتا ہوں، میں نے عورتوں سے شادیاں بھی کی ہیں، لہٰذا جو بھی میرے طریقہ سے ہٹے گا وہ مجھ سے تعلق توڑے گا، ایک حدیث میں وارد ہوا ہے”إذا تزوج العبد فقد استکمل نصف الإیمان․“ (شعب الایمان بیہقی) بندہ نکاح کرکے اپنا آدھا ایمان محفوظ ومکمل کر لیتا ہے، کیوں کہ گناہ کے دو بڑے ذرائع ( زبان اور شرم گاہ) میں سے شرم گاہ پر نکاح کے ذریعہ قابو پالیا جاتا ہے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے نوجوانوں کو تاکید ی حکم فرمایا۔

”یا معشر الشباب، من استطاع منکم الباء ة فلیتزوج؛ فإنہ أغض للبصرو أحصن للفرج․“(بخاری)
ترجمہ:”نوجوانو! تم میں جو بھی حقوق زوجیت ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہو وہ نکاح ضرور کرے، کیوں کہ اس سے نگاہ میں احتیاط آتی اورشرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔“

تشریح… حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے ترغیب ِ نکاح کے ساتھ ہی اس سلسلہ کی تفصیلی ہدایات بھی دی ہیں، سب سے بڑا اور پہلا مسئلہ بیوی کے انتخاب کے معیار کا ہے، اس سلسلہ میں سب سے اصولی ہدایت یہ ہے کہ اس پوری دنیا کے بارے میں یہی عقیدہ ہونا چاہیے کہ یہ وقتی نفع ہے جو جلد ہی ختم ہو جائے گا، دنیا کو متاع قرار دیا گیا ہے، متاع وہ چیز ہے، جس سے تھوڑا سا فائدہ اٹھایا جائے، پھر وہ فنا ہو جائے اور اس دنیائے فانی کا سب سے بہتر تحفہ او رنفع بخش چیزنیک اور صاحب ِ اوصاف ِ حمیدہ عورت ہے اوروہی زندگی کو جنت کا نمونہ اور خوش گوار بناتی ہے، ایک حدیث میں وارد ہوا ہے :”ما استفاد المؤمن بعد تقوی الله خیراً لہ من زوجة صالحة إن أمرھا أطاعتہ وإن نظر إلیھا سرتہ وإن أقسم علیھا أبرتہ وإن غاب عنھا نصحتہ فی نفسھا ومالہ“ ․(ابن ماجہ) مؤمن کو تقویٰ کے بعد سب سے زیادہ فائدہ نیک بیوی سے پہنچتا ہے او راچھی بیوی کے اوصاف یہ ہیں کہ جو شوہر کے حکم کی فوراً تعمیل کرتی ہو ،شوہر کو اس کی طرف دیکھ کر خوشی حاصل ہوتی ہو، شوہر اس پر اعتماد کرتے ہوئے قسم کھا لے تو اسے پورا کرتی ہو، شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے مال کو ضائع نہ کرتی ہو اور اپنی ذات سے بھی اسے کسی طرح کا رنج نہ پہنچنے دیتی ہو۔

انسان عام طور پر اپنی کم عقلی اور کوتاہ اندیشی کے سبب سے حسن ِ صورت کو حسن ِ سیرت پر فوقیت دیتا ہے اور عوماً اس کو شکل وصورت کے لحاظ سے ممتاز بیوی کی تلاش رہتی ہے، جب کہ حسن وجمال ایک سریع الزوال چیز ہے، یہ بھی عام مزاج ہے کہ مال دار عورت سے نکاح ہو اور اچھے خاندان اورحسب ونسب کی لڑکی ہو، بعض لوگ دین داری اور حسن ِ سیرت کو معیار بناتے ہیں ،گویا عموماً بیوی کے انتخاب میں یہ چار یا ان میں سے بعض چیزیں ہی معیار ہوتی ہیں۔ خاندان، مال، حسن وجمال اور دین داری، حدیث میں فرمایا جارہا ہے کہ تم دین دار عورت کو اپنا مطلوب بناؤ، یعنی سب سے زیادہ قابل ِ ترجیح وصف دین دار ی ہے، جسے دین دار بیوی مل جائے اس کی خوش نصیبی کی کوئی انتہا نہیں، ایک بہترین رفقیہ زندگی میں جو خوبیاں مطلوب ہوتی ہیں وہ ان کی حامل ہو گی، رسول صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اوصاف کی بنا پر عربوں میں قریش کی صالح عورتوں کو بہترین خواتین قرار دیتے ہوئے فرمایا:”خیر نساء رکبن الابل صالح نساء قریش، أحناہ علی ولد فی صغیرہ ،وأرعاہ علی زوج فی ذات یدہ“ ․(بخاری) عربوں میں سب سے بہترین قریش کی نیک عورتیں ہیں کہ وہ بچوں پر نہایت شفیق اور شوہر کے مال واملاک کی بہت دیکھ بھال کرتی ہیں۔

ایک دوسری حدیث میں وارد ہوا ہے : ” المرأة إذا صلت خمسھا، وصامت شھرھا، وأحصنت فرجھا، وأطاعت بعلھا، فلتدخل من أی أبواب الجنة شاء ت“․ (مشکوٰة ) عورت جب پانچوں نمازیں ادا کرتی ہو، پورے رمضان کے روزے رکھتی ہو، شرم گاہ کی حفاظت اور شوہر کی اطاعت کرتی ہو تو وہ جس دروازے سے بھی چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔

ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے : ”لا تزوجوا النساء لحسنھن، فعسی حسنھن أن یردیھن، ولا تزوجوھن لاموالھن، فعسی اموالھن ان تطغیھن، ولکن تزوجوھن علی الدین، ولأمة سوداء ذات دین أفضل“․ (ابن ماجہ) تم عورتوں سے شادی ( محض) ان کے حسن کی وجہ سے نہ کرو، کیوں کہ عین ممکن ہے کہ ان کا حسن انہیں ہلاک کر دے، نہ ہی ان کی دولت کو پیش نظر کھ کر شادی کرو، کیوں کہ بہت ممکن ہے کہ ان کی دولت انہیں سرکش بنا دے، بلکہ اصل مطمح نظر دین داری کو بناؤ ، دین دار سیاہ رنگت بدصورت باندی بھی زیادہ بہتر او رقابل ترجیح ہے۔

مطلب یہ ہے کہ اصل چیز دین داری اور تقوی ہے، ویسے یہ چاروں خوبیاں کسی عورت میں جمع ہو جائیں تو یہ بہت اچھا ہے، لیکن دین داری کو نظر انداز کرکے صرف حسب و نسب اور مال وجمال ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھنا مسلمان کا کام نہیں ہے : ”إذا خطب إلیکم من ترضون دینہ وخلقہ فزوجوہ، إلا تفعلوا تکن فتنة فی الارض وفساد عریض“․ (ترمذی) جب کسی ایسے شخص کی طرف سے پیغام نکاح آجائے جس کے اخلاص اور دین سے تم مطمئن ہو تو فوراً ہی شادی کر دو، ورنہ زمین کے اندر عظیم فتنہ وفساد برپا ہو گا۔ ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جو شخص محض حصول عزت کے لیے کسی عورت سے نکا ح کرے گا اس کی ذلت میں اضافہ ہو گا، جو صرف مال کی بنا پر شادی کرے اس کے فقر میں اضافہ ہو گا اور جو خاندانی شرافت کی بنا پر اپنے کو شریف مشہو رکرانے کی غرض سے کسی عورت سے نکاح کرے گا، اس کی عزت گھٹتی جائے گی، ہاں! جس کا مقصد نکاح سے یہ ہو کہ اس کی زندگی پاکیزہ ہو جائے یا وہ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرسکے تو ایسا نکاح دونوں کے لیے خیر وبرکت کا باعث ہو گا۔

بیوی کی طرح شوہر کا بھی لائق ترجیح وصف دین داری ہے، کیوں کہ دین داری ہو گی تبھی وہ تمام حقوق ادا کرے گا اور زندگی کام یاب گزرے گی، حدیث میں وارد ہوا ”النکاح رق، فلینظر أحدکم این یضع کریمتہ؟!“ نکاح عورت کو کنیز بنا دیتا ہے، اس لیے دیکھ لیا کر وکہ تم اپنی بیٹی کہاں دے رہے ہو؟ ”من زوج کریمتہ من فاسق فقد قطع رحمھا“․ (ابن ماجہ ) جس نے کسی فاسق سے اپنی لڑکی کی شادی کر دی تو اس نے اپنی بیٹی کے ساتھ قطع رحمی کی۔

ان تفصیلات سے یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ اسلام میں کفاء ت کا کوئی اعتبار نہیں ہے، ظاہر ہے کہ نکاح کا اصل مقصود زن وشوہر کی طبیعتوں میں باہمی موافقت او رمزاجوں میں مناسبت کے بغیر نہیں مکمل ہوسکتا ، مسئلہ کفو کی تفصیلات وحدود فقہ کی کتابوں میں ہیں، مسلم سماج میں فساد درآیا ہے، جس کے نتیجہ میں اس مسئلہ کفو کی من مانی توجیہ کی جارہی ہے ،جو بالکل ناقابل اعتبار ہے۔

یہاں ہم احادیث کی روشنی میں بیوی کے مطلوبہ چند اہم اوصاف کا مختصراً ذکر کررہے ہیں:

نیک اور دین دار بیوی ہو، جیسا کہ مختلف احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔

خاندان بھی اچھا ہو، جیسا کہ ایک حدیث میں قریش کی خواتین کو سب سے بہتر قرار دیا گیا ہے، مگر یہ ملحوظ رہے کہ دین داری بھی ہو، قریش کی عورتوں کی افضیلت دین داری اور اعلیٰ خاندان دونوں کی وجہ سے تھی۔

عورت کنواری ہو، مطلب یہ ہے کہ بیوہ یا مطلقہ وغیرہ کے مقابلہ میں کنواری عورت قابل ِ ترجیح ہے، حدیث میں وارد ہوا ہے: ”علیکم بالأبکار، فإنھن أعذب أفواھاً، وأنتق أرحاما، وأرضیٰ بالیسیر․“ (ابن ماجہ) تم کنواری عورتوں سے شادی کرو، کیوں کہ وہشیریں دہن، اولاد کی زیادہ صلاحیت رکھنے والی او رکم پر راضی ہونے والی ہوتی ہیں۔ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے”أقل خبا وأسخن إقبالاً“ وہ داؤں پیچ کم جانتیں اور شوہر کا گرم جوشی سے استقبال کرتی ہیں۔ اس حکم میں انسانی جذبات کی رعایت ہے۔ پھر مقاصد نکاح کے لحاظ سے ایسی عورت زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے، چوں کہ بیوہ مطلقہ کے مقابلہ میں غیر شادہ شدہ لڑکیاں زیادہ ہوتی ہیں، اور ناتجربہ کاری اور جذباتیت کی بنیاد پر ان کا مبتلائے فتنہ وہوس ہونا آسان ہوتا ہے، پھر اسی لیے ان کے سرپرستوں کو ان کی شادی کی بے حد فکر رہتی ہے، جب کہ مطلقہ وبیوہ وغیرہ کے ساتھ یہ مسائل نہیں ہوتے، بلکہ بعض اوقات وہ بغیر شوہر کے زندگی گزارنے میں راحت محسوس کرتی ہیں، اسی لیے یہاں کنواری لڑکیوں کو ترجیح دی گئی ہے، ورنہ یہ مطلب نہیں ہے کہ انفرادی مصلحتوں، شخصی ضروریات یا بعض اوقات کسی قوم یادینی تقاضے سے مطلقہ وبیوہ سے نکاح کرنا قابل ترجیح نہیں ہے، کیوں کہ حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے سوا حضور صلی الله علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات مطلقہ یا بیوہ ہی تھیں، پھر نکاح بیوگان خود بعض مصالح کی بنا پر مطلوب ہے۔

عورت خوب بچے جننے والی او ربہت محبت کرنے والی ہو، حدیث میں آیا ہے :”تزوجوا الودود الولود، فإنی مکاثر بکم الأمم“․ (ابوداؤد ونسائی) تم ایسی عورت سے نکاح کرو جو اپنے خاوند سے زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ اولاد پیدا کرنے والی ہو ،کیوں کہ میں دوسری اُمتوں کے مقابلہ میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا، کثرت ولادت ومحبت کا اندازہ شادی سے پہلے اس کے خاندان کے عام مشاہدہ سے ہوسکتا ہے۔

گھریلو اُمور کو بخوبی انجام دینے والی ہو، فرمایا گیا: ” المرأة راعیة علی بیت زوجھا وولدہ“ (بخاری) عورت اپنے شوہر کے گھر اوراس کی اولاد کی نگہبان ہے۔

اپنے شوہر کی اطاعت گزار ہو، حدیث میں وارد ہوا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ بہترین بیوی کون ہوتی ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” التی تسرہ إذا نظر، وتطیعہ إذا أمر، ولا تخالفہ فی نفسھا ولا فی مالھا بما یکرہ“ ․ (مشکوٰة) جسے دیکھ کر شوہر کو خوشی ہو، اس کے ہر حکم کی تعمیل کرے اور کوئی کام ایسا نہ کرے جو شہر کو ناپسند ہو۔

پاک دامن ہو، قرآن میں وارد ہوا ہے ﴿الزَّانِی لَا یَنکِحُ إِلَّا زَانِیَةً أَوْ مُشْرِکَةً وَالزَّانِیَةُ لَا یَنکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ﴾․(سورة النور:3) زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کر ے مگر زانی یا مشرک، اور یہ اہل ایمان پر حرام کر دیا گیا ہے نیز فرمایا گیا : ﴿الْخَبِیثَاتُ لِلْخَبِیثِینَ وَالْخَبِیثُونَ لِلْخَبِیثَاتِ وَالطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبَاتِ﴾․ (النور:26) خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے، پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں اورپاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔

ان کے علاوہ اورمتعدد اوصاف ہیں، جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔

حدیث کے آخر میں ایک جملہ ”تربت یداک“ (تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں) آیا ہے، لفظی مفہوم کے لحاظ سے یہ جملہ ذلت وہلاکت کی بددعا کے لیے کنایة استعمال ہوتا ہے، لیکن یہاں اس سے بد دعا نہیں، بلکہ دین دار عورت کو اپنا مطلوب ومقصود بنانے کی ترغیب مراد ہے۔