کمپنی کی طرف سے دکان دار کو دیے گئے اکاؤنٹ کے علاوہ دوسرے اکاؤنٹ کے ذریعے پیسے بھیجنے کا حکم

کمپنی کی طرف سے دکان دار کو دیے گئے اکاؤنٹ کے علاوہ دوسرے اکاؤنٹ کے ذریعے پیسے بھیجنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اکثر دکان دار یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے تجارتی اکاؤنٹ سے جو ان کو بحیثیت نمائندہ کمپنی نے دیا ہوا ہے، اس کے ذریعے سے لوگوں کو پیسے نابھیجتے ہیں نا نکال کر دیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کو کمیشن بہت کم ملتا ہے، بلکہ وہ اپنے ایک پرسنل اکاؤنٹ سے جو بحیثیت کسٹمر انہوں نے بنایا ہوتا ہے ،تو وہ دکان پر ہی لوگوں کو اس کسٹمر اکاؤنٹ سے جو انہوں نے بحیثیت کسٹمر بنایا ہوتا ہے ،اس کے ذریعے لوگوں کو پیسے نکال کر دیتے ہیں اور بھیجتے ہیں اور لوگوں سے خود ہزار روپے پر 20 روپے اضافی رقم لیتے ہیں، شرعا یہ کس حیثیت سے اضافی رقم لیتا ہے؟ آیا اس کا اضافی رقم لینا درست ہے یا نہیں؟

جواب

 صورت مسئولہ میں کمپنی کی طرف سے دکان دار کو دیے گئے تجارتی اکاؤنٹ کے علاوہ اپنے پرسنل (ذاتی) اکاؤنٹ کے ذریعے پیسے بھیجنے اور نکالنے کی اجازت ہو، تو اس صورت میں 20 روپے اضافی رقم لینا درست ہے، اور اگر کمپنی کی طرف سے اپنے ذاتی اکاؤنٹ کے ذریعے پیسے بھیجنے اور نکالنے کی اجازت نہ ہو، تو اس صورت میں اضافی رقم لینا درست ہے، لیکن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

وفي التنزیل:
«وأوفوا بالعہد إن العہد کان مسئولا».(الإسراء:٣٤)
وفي روح المعاني:
«أوفوا بالعھد»ما عاھدتم اللہ تعالی علیہ من التزام تکالیفہ، وما عاھدتم علیہ غیرکم من العباد، ویدخل في ذلک العقود..........والإیفاء بالعھد والوفاء بہ:ھو القیام بمقتضاہ والمحافظۃ علیہ وعدم نقضہ، واشتقاق ضدّہ، وھو العذر، یدل علی ذلک، وھو الترک ولا یکاد یستعمل إلا بالیاء، فرقا بینہ وبین الإیفاء الحسّي، کإیفاء الکیل والوزن‘‘.(سورۃ الإسراء [الآیۃ:٣٤] ١٤/ ٥٠٣:مؤسسۃ الرسالۃ)
لما في السنن الکبری:
’’حدثنا حماد بن سلمۃ، عن علي بن زید عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لا یحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفس منہ‘‘.([رقم الحدیث: ١١٥٤٥]، ٦/ ١٦٦:دار الکتب العلمیۃ)
وفي الصحیح لمسلم:
’’عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: آیۃ المنافق ثلاث: إذا حدّث کذب، وإذا وعد أخلف، وإذا ائتمن خان‘‘.(کتاب الإیمان، باب خصال المنافق، رقم الحدیث: ٢١١، ٢١٢:دار السلام).
وفي التنویر مع الدر:
’’وشرطہا: کون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین‘‘.(کتاب الإجارۃ، ٩/ ٩:رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر:176/214