نئے نوٹوں کو پرانے نوٹوں کے بدلے مہنگا فروخت کرنا

نئے نوٹوں کو پرانے نوٹوں کے بدلے مہنگا فروخت کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے کوئٹہ شہر میں ایک ایسا کاروبار ہے جو پیسوں کو پیسوں کے بدلے کم ریٹ میں خریدتے ہیں، کہ ایک شخص جو بینک کا ملازم ہے، وہ دکان داروں سے دس روپے کے نوٹ خریدتا ہے، مثلاً اس طرح کہ دکان دار کے پاس دس  روپے کے نوٹ پانچ لاکھ پڑے ہوئے، وہ اس سے چار لاکھ پچانوے ہزار میں خریدتا ہے، اس میں اس کا پانچ ہزار روپے نفع ہے، اور دکان دار اس کو اس لیے دیتے ہیں کہ وہاں کوئٹہ کے چھوٹے بینک ان سے یہ دس والے نوٹ نہیں لیتے، وہ مجبور ہیں ان کو دیتے ہیں، اور یہ آدمی ان سے یہ دس کے نوٹ لاکر اپنے گھر میں ان کو ترتیب دیتا ہے، ان میں اکثر پھٹے ہوئے اور اکثر نوٹ ناکارہ ہوتے ہیں، یعنی مارکیٹ وغیرہ میں نہیں چلتے ، وہ بندہ خریدتا ہے، کیا اس طرح خرید وفروخت جائز ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں بغیر کسی عوض کے کم پیسے دے کر زیادہ پیسے وصول کرنا ناجائز اور حرام ہے، البتہ اگر دکان دار اپنے ٹوٹے ہوئے نوٹوں کو جدا کرکے بینک والے کو دیدے، اور اسے بطور وکالت نوٹوں کو تبدیل کروانے کا کام متعین اجرت پر دیدے اور بینک والا نوٹوں کو تبدیل کروانے کے بعد اس دکان دار سے اس کے عوض وہ متعین اجرت لے لے ،تو یہ صورت جائز ہے۔
لما في قولہ تعالی:
«وأحل اللہ البیع وحرم الربا». (سورۃ البقرۃ: ٢٨٥)
وفي التنویر مع الدر:
’’ھو لغۃ: مطلق الزیادۃ، وشرعا: فضل خال عن عوض‘‘.(کتاب البیوع، باب الربا، ٧/ ٤١٦- ٤١٧:رشیدیۃ)
وفي عمدۃ الرعایۃ:
’’ھو فضل خال عن عوض شرط لأحد العاقدین في المعاوضۃ.......وھو أن في کل من المرابحۃ والربا زیادۃ إلا أن تلک الزیادۃ حلال، وھذا حرام‘‘.(کتاب البیوع، باب الربا، ٥/ ٢٠٢:قدیمی)
وفي التنویر مع الدر:
’’وشرطھا: کون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین لأن جھالتھما تفضي إلی المنازعۃ‘‘.(کتاب الإجارۃ، ٩/ ٩:رشیدیۃ)
وفي درر الأحکام شرح مجلۃ الأحکام:
’’وإذا شرطت الأجرۃ في الوکالۃ وأوفاھا الوکیل استحق الأجرۃ ،وإن لم تشترط ولم یکن الوکیل ممن یخدم بالأجرۃ کان متبرعا فلیس لہ أن یطالب بالأجرۃ‘‘.(الکتاب الحادي عشر الوکالۃ، الباب الثالث، الفصل الأول، المادۃ: ١٤٦٧، ٣/ ٥٢٣:دار الکتب العلمیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/302