مکان ہبہ کرنے کے بعد اس میں رہائش اختیار کرنے کا حکم

مکان ہبہ کرنے کے بعد اس میں رہائش اختیار کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مىرے والد صاحب نے اپنا مكان جس كے چار پورشن ہىں: گراؤنڈ، پہلی، دوسری اور تیسری منزل کو اپنی زندگی میں ہم تین بھائیوں اور ایک بہن کو ہدیہ کردیا تھا، یعنی ہر پورشن کو ہم تین بھائیوں اور بہن کو الگ الگ دے دیا تھا، کہا کہ یہ تین پورشن تم تینوں بھائیوں اور بہن کے ہیں، اور نہ صرف مالک بنایا تھا بلکہ پورشن کا قبضہ بھی ہمیں دے دیا تھا، اور کہا تھا کہ تم سب گواہ ہو کہ میں نے یہ پورشن آپ کو دے دیے ہیں، اور گواہ رہیں کہ کوئی کسی کے پورشن پر قابض نہیں ہوگا، اس کام کے انجام دینے کے کچھ عرصہ کے بعد ہمارے ایک بھائی کا انتقال ہوگیا، جس کا گراؤنڈ فلور کا پورشن تھا اور والدین اس بھائی کے ساتھ رہائش پذیر تھے، اور انہوں نے یہ بات کہہ دی تھی کہ یہ پورشن اس بھائی کا ہے اور اس میں موجود تمام چیزیں بھی اور ہم اس بیٹے کے پاس ہی رہیں گے، لیکن یہ پورشن اس بیٹے کا ہی ہوگا، اس بیٹے کے انتقال کے بعد والد صاحب نے کہا کہ اس بیٹے نے پورشن اپنے نام نہیں کروایا، لہذا اس کا مالک میں ہوں (حالاں کہ اس بیٹے کا اپنا ایک بیٹا بھی ہے) اس میں پوتے کا کچھ حصہ نہیں ہے، میں اس پورشن کو جسے بھی چاہوں گا دوں گا، لیکن پوتا اس کا حق دار نہیں ہے، جب کہ اس بیٹے کو اس کی زندگی میں یہ مالک بنا کر اور قبضہ بھی دے چکے تھے، آپ بتائیں کہ یہ پورشن بیٹے کی ملکیت ہے؟ اگر ہے تو اس میں اس کے بیٹے اور والدین کا کتنا حصہ بنتا ہے؟ اگر والد کی ملکیت میں ہوگا جس کا وہ دعوی کر رہے ہیں، تو وہ کسی کو بھی چاہے دے سکتے ہیں یا نہیں؟ شریعت کی رو سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ جس چیز کو ہبہ کیا جاتا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہبہ کرنے والے کی ملکیت اور اس کے منجملہ حقوق سے لاتعلق ہو، صورت مسئولہ میں جس پورشن کو ہبہ کیا ہے، خود ہبہ کرنے والا اسی پورشن میں رہائش پذیر ہے، لہذا صورت مسئولہ میں ہبہ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے باطل ہے، اور مذکورہ پورشن والد ہی کی ملکیت ہے، وہ جسے چاہے دے سکتے ہیں۔
البتہ چوں کہ وہ کئی لوگوں کے سامنے دینے کا اقرار واعتراف کر چکے ہیں اس لئے اپنی زبان کی لاج رکھتے ہوئے، اگر اپنے پوتے کو کچھ حصہ دے دیں تو اچھی بات ہے۔
لما في الجوهرة النيرة:
قوله:(ولا تجوز الهبة فيما يقسم إلا محوزة مقسومة) ...... ومعنى قوله:((لا تجوز)): أي لا يثبت الملك فيها؛ لأنها في نفسها وقعت جائزة، لكن غير مثبتة للملك قبل تسليمها محوزة، فإنه لو قسمها وسلمها مقسومة صحت“.(كتاب الهبة، 16/2:دار الكتب العلمية)
وفي التاتارخانية:
قال محمد في الأصل: لاتجوز الهبة إلا محوزة مقسومة مقبوضة يستوي فيه الأجنبي، والولد، إذا كان بالغا.... ويعني بالغا.... ويعني بالحوز أن يكون مفرغا عن املاك الواهب، وحقوقه ويعنى بالمقسوم أن يبقى منتفعا قبل القسمة وبعدها“.(كتاب الهبة، الفصل الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز: 421/4:مكتبة فاروقية)
وفيه أيضا:
’’وهب رجل دارًا فيها متاع الواهب دفعها إلى الموهوب له فالهبة باطلة، هكذا ذكر في الزيادات: ومعناه أنه غير نافذة، وفي الذخيرة: معناه أنه غير تامة وفي البقالى: وفي الدار متاع الواهب، أو انسان من أهله“.(كتاب الهبة، الفصل الثاني، 430/4:مكتبة فاروقية)
في التنوير مع الدر:
”(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول)“.(كتاب الهبة: 569/8:رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/15