معصیت(گناہ) پر تنبیہ کے لیے قطع تعلقی کا حکم

معصیت پر تنبیہ کے لیے قطع تعلقی کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے کچھ خاندانی مسائل کا حل شریعت مطہرہ کی روشنی میں مطلوب ہے، امید ہے رہنمائی فرمائیں گے۔

 زید کے برادر نسبتی یعنی اہلیہ کے بھائی منشیات کی خرید وفروخت کا کاروبار کرتے ہیں، کیا ہم انہیں گھر کی تقریبات میں مدعو کرسکتے ہیں؟ وہ اس کاروبار کو فی الحال سمجھانے کے باوجود چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے، ہم حرام آمدن سے بچنا چاہتے ہیں، لہذا ہم نے فی الحال اس وجہ سے ان کے گھر جانا آنا ترک کیا ہوا ہے، لہذا ہمارا یہ عمل صحیح ہے؟ برائے کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمادیں تو مہربانی ہوگی۔
وضاحت: منشیات سے مراد چرس، ہیروئن وغیرہ ہیں۔

جواب

شرعی نقطہ نظر سے منشیات کا کاروبار کرنا گناہ کبیرہ اور حرام ہے، اس سے بچنا ضروری ہے، لہذا صورت مسئولہ میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے آپ کا فریضہ بنتا ہے کہ آپ اپنے برادر نسبتی کو خود نرمی سے سمجھائیں، یا کسی اللہ والے کے پاس لے جائیں، ان کے بیانات میں شرکت وغیرہ کرائیں، ان شاء اللہ تعالی اس سے فائدہ ہوگا، اگر سمجھانے کے باوجود وہ نہیں مانتا اور قطع تعلقی سے اصلاح کی امید ہے، یا تعلق سے دوسروں کے گناہ میں پڑنے کا اندیشہ ہے، تو اس کے ساتھ ترک موالات (قطع تعلقی) کرلیں یہاں تک کہ وہ تنگ آکر توبہ کرلے۔
لما في المرقاۃ:
’’ثم اعلم أنہ إذا کان المنکر حراما وجب الزجر عنہ، وإذا کان مکروہا ندب والأمر بالمعروف أیضا تبع لما یؤمر بہ، فإن وجب فواجب، وإن ندب فمندوب، ولم یتعرض لہ في الحدیث؛ لأن النہي عن المنکر شامل لہ إذ النہي عن الشيء أمر بضدہ وضد المنہي أما واجب أو مندوب أو مباح، والکل معروف، وشرطہما أن لا یؤدي إلی الفتنۃ، کما علم من الحدیث، وأن یظن قبولہ، فإن ظن أنہ لا یقبل فیستحسن إظہار الشعار الإسلام، ولفظ من لعمومہ شمل کل أحد رجلا أو امرأۃ، عبدا أو فاسقا أو صبیا ممیزا إذا کان...... ومن تمکن منہ وترکہ بلا عذر أثم، وقد یتعین کما إذا کان في موضع لا یعلم بہ إلا ہو أو لا یتمکن من إزالتہ إلا ہو، وکمن یری زوجتہ أو ولدہ أو غلامہ علی منکر قالوا: ولا یسقط عن المکلف لظنہ أن لا یفید، بل یجب علیہ فعلہ، فإن الذکری تنفع المؤمنین، وما علی الرسول إلا البلاغ المبین....... وینبغي للآمر والناہي أن یرفق لیکون أقرب إلی تحصیل المطلوب‘‘.(کتاب الآداب، باب الأمر بالمعروف، الفصل الأول: ٥/ ٨٦٢، ٨٦٣: رشیدیۃ)
وفي تکملۃ فتح الملہم:
’’وحاصل ذلک أن الہجران إنما یحرم إذا کان من جہۃ غضب نفساني أما إذا کان علی وجہ التغلیظ علی المعصیۃ والفسق، أو علی وجہ التأدیب کما وقع مع کعب بن مالک وصاحبیہ، أو کما وقع لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مع أزواجہ أو لعائشۃ مع ابن الزبیر رضي اللہ عنہم فإنہ لیس من الہجران الممنوع، واللہ سبحانہ أعلم‘‘.(کتاب الأدب، باب تحریم الہجر فوق ثلاث بلا عذر شرعي [رقم الحدیث: ٦٤٩٠]: ٥/ ٢٥٦: دار العلوم کراتشي).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 173/04