مسلم اور غیر مسلم کے لیے کھانا پکانے والی کی اجرت کا حکم

مسلم اور غیر مسلم کے لیے کھانا پکانے والی کی اجرت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص پاکستان نیوی میں باورچی کی ملازمت کرتا ہے،دوران ملازمت کچھ عرصے کے بعد قانون کے مطابق ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسفر ہوتا رہتا ہے،چنانچہ پہلے جس جگہ پر ملازمت کررہا تھا وہاں پر صرف مسلمانوں کے لیے کھانا پکتا تھا،لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب ٹرانسفر ہوگیا اور دوسری جگہ چلا گیا ،تو وہاں پر دو قسم کے کھانے پکتے تھے، ایک مسلمانوں کے لیے جو کہ حلال اجزاء سے تیار کیا جاتا ہے، دوسرا غیر مسلموں کے لیے جو کہ حرام اجزاء سے تیار کیا جاتا تھا مثلاً خنزیر کا گوشت وغیرہ۔لیکن جو کھانا غیر مسلموں کے لیے تیار ہوتا ہے وہ نہ ہی مسلمانوں کو دیا جاتا ہے اور نہ ہی اسے اپنے استعمال میں لاتا ہے،بلکہ صرف اپنی مفوضہ ذمہ داری پوری کر کے کھانا ان(غیر مسلموں ) کے حوالے کردیا جاتا ہے۔
اب سوال یہ پوچھنا ہے کہ آیا یہ ملازمت کرنا جائز ہے ؟اور کیا اس کی آمدنی حلال ہے؟اس لیے کہ اگر غیر مسلموں کے لیے کھانا پکانے سے انکار کرتا ہے،تو ملازمت سےفارغ کردیا جائے گا اور اگر انکار نہیں کرتا تو پھر مسلمانوں کے کھانے کے ساتھ غیر مسلموں کے لیے بھی کھانا تیار کرنا پڑے گا؟
ازراہِ کرم شریعت کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ ایسی ملازمت کرنا جس میں حلال وحرام دونوں کام کرنے پڑتے ہوں، جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے، لیکن اگر کوئی ایسی ملازمت اختیار کرتا ہے، تو اس کے لیے حلال کام کی اجرتِ مثل کی مقدار حلال ہوگی اور جو حرام کام کے بقدر اجرت ہوگی وہ حلال نہ ہوگی۔
لما في قولہٖ تعالٰی:
«ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان».(سورۃ المائدۃ:02)
وفي روح المعاني:
’’فیعم النھی کل ما ھو من مقولۃ الظلم والمعاصی ،ویندرج فیہ النھی عن التعاون علی الاعتداء والانتقام ، وعن إبن عباس رضی اللہ عنہما وأبی العالیۃ، انھما الاثم بترک ما امرھم بہ وارتکاب مانھاھم عنہ‘‘.([سورۃ المائدۃ:2]27/7،مؤسسۃ الرسالۃ).
وفي فقہ البیوع:
’’والحاصل: أن الإجارۃ في الخدمۃ المباحۃ! إنما تصح إذا کانت أجرتھا معلومۃ بانفرادھا، ولاتصح فیما إذا لم تکن اجرتھا معلومۃ، فإن کان کذلک في خدمات اجرۃ الموظف فیھا مرکبۃ من الحلال والحرام..........وحل التعامل معہ بقدر الحلال.اما إذا لم تعرف أجرۃ الخدمۃ المباحۃ علی حدتھا، فالإجارۃ فاسدۃ، ولکن الأجیر یستحق أجر المثل في الاجارات الفاسدۃ، کما صرح بہ ابن قدامۃ رحمہ اللہ تعالٰی بذلک في إجارات فاسدۃ أخریٰ وعلیٰ ھٰذا، فان ما یقابل أجر المثل للخدمۃ المباحۃ في راتبہ ینبغی أن یکون حلالا؛ فصار راتبہ مخلوطا من الحلال والحرام في ھٰذہ الصورۃ أیضاً،فینبغی أن یجوز معہ التعامل بقدر الحلال‘‘.(باب العاشر في احکام المال الحرام، حکم الفنادق والمطاعم:1022/2،معارف القرآن).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/324