مروجہ فاتحہ خوانی کا حکم

مروجہ فاتحہ خوانی کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مروجہ فاتحہ جو تین دن ہوتی ہے، جس میں ہر شخص کے آنے جانے کے وقت ہاتھ اٹھانے کے ساتھ دعاء کی جاتی ہے، اور تیسرے دن کے قرآن خوانی مطلوب ہوتی ہے؟شریعت کی رو سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ کے انتقال پر اہل میت سے تین دن تک تعزیت کر سکتے ہیں، البتہ تعزیت کے موقع پر نہ ہاتھ اٹھانا ثابت ہے، اور نہ ہی قرآن خوانی، اور تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے پسماندگان کو تسلی دے دی جائے اور مرحوم کے لیے مغفرت کی دعاء کی جائے اور بس۔
لما في التنوير مع الرد:
”ويتعزية أهله وترغيبهم في الصبر وباتخاذ طعام لهم بالجلوس لها في غير مسجد ثلاثة أيام، وأولها أفضل، وتكره بعدها إلا لغائب. وتكره التعزية ثانيا، وعند القبر، وعند باب الدار؛ ويقول عظم الله أجرك، وأحسن عزاءك“.
وتحته في الرد:
وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول، والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص“.(كتاب الصلاة، مطلب في كراهة الضيافة من أهل الميت:3/ 176: رشيدية). فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/132