مجنون بیٹی کو ایدھی سینٹر جیسے اداروں کے حوالے کرنے کا حکم

مجنون بیٹی کو ایدھی سینٹر جیسے اداروں کے حوالے کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، ایک بیٹے اور ایک بڑی بیٹی کی شادی کردی ہے اور دونوں خوش وخرم اپنی زندگی گزار رہے ہیں، جب کہ ایک سب سے چھوٹی بیٹی کنواری ہے اور ایک بیٹی جوکہ میری سب سے بڑی بیٹی سے ایک سال چھوٹی ہے بچپن ہی سے نہایت ضدی، غصیلی اور لااُبالی طبیعت کی مالک ہے، بچپن سے ہم اس کی تمام غلطیاں اور ضد بچی سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے، مگر جب سے اس نے جوانی میں قدم رکھا ہے، اس کا غصہ اور ضد کرنے کی عادت ختم ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ گئی بلا وجہ کسی کو مارنے لگ جاتی ہے، کبھی کسی پر اینٹ سے حملہ کردیتی ہےاور کبھی کسی نوک دار چیز سے مارتی ہے، جس کی وجہ سے تمام گھر والے اس سے نہایت پریشان رہنے لگے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہر سال موسم سرما میں اس بچی پر ایک دورہ پڑتا ہے، جس سے یہ اور زیادہ غصہ کرنے لگتی ہے اور ہر کسی کو مارنے لگتی ہے اور اس دوران گھر سے بھاگتی ہے، جس وجہ سے اس کو زنجیروں سے باندھ کر بھی رکھنا پڑتا ہے، مگر کئی بار ایسا ہوا کہ یہ چکمہ دے کر گھر سے فرار ہونے میں کامیاب بھی ہوگئی، مگر ہم اس کو کسی نہ کسی طرح ڈھونڈ کر گھر لے آئے، ہم نے اپنی طرف سے ہر طرح کا روحانی اور طبی علاج بھی کروایا ،مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا، بچی نے متعدد بار اپنی شادی کی خواہش کا بھی اظہار کیا تو ہم نے یہ سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ سارا غصہ اور ضد شادی کی وجہ سے ہو تو ہم نے ایک رشتہ ڈھونڈ کر وہاں اس کی شادی کروادی ،مگر شادی کو بمشکل ایک ہفتہ ہی ہوا ہے کہ بچی کے سسرال سے بھی شکایات ملنا شروع ہوگئی ہیں کہ یہ وہاں بھی ٹھیک سے نہیں رہ رہی، اب وہ لوگ بچی کو طلاق دینا چاہتے ہیں۔
مفتی صاحب!میں اپنی زندگی میں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو مقدم رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ میرا کوئی فیصلہ یا قدم ایسا نہ ہوکہ جس سے مجھے دنیا وآخرت میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑے، مگر اس بچی کو لے کر میں بہت پریشان ہوں اور اس کی والدہ یعنی میری بیوی اس کی ٹینشن کی وجہ سے کافی بیمار ہوگئی ہے، ہمارا چھوٹا سا گھر ہے جس میں میرا بیٹا، اس کی بیوی اور ایک بچی (اڑھائی سال) میری بیوی اور میری چھوٹی بیٹی رہتی ہے اب اگر خدانخواستہ میری بچی طلاق لے کر گھر آجاتی ہے تو دوبارہ سے گھر میں وہی پریشانی اور دنگا فساد ہوگا اور میری پوتی پر بھی اس کا برا اثر پڑے گا ،ہمیں اس بات کا خطرہ ہے کہ کسی دن یہ کسی کو جانی نقصان نہ پہنچا دے، پاکستان میں کئی ایسے ادارے ہیں (جیسا کہ ایدھی سنٹر) جو ذہنی معذور اور لاوارث لوگوں کی عمر بھر کفالت کرتے ہیں اور ان کی تعلیم کھانے پینے اور رہائش کا بھی بندوبست کرتے ہیں، میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اپنی زندگی میں ہی اس بچی کو ایسے کسی ادارے میں داخل کروادیا جائے ،تاکہ میرے باقی بچے سکون سے زندگی گزار سکیں۔

 مفتی صاحب! کیا میں ایسا فیصلہ کرکے اپنی بچی پر کوئی ظلم تو نہیں کررہا اور کیا میں اس سے اللہ کی بارگاہ میں گناہ گار تو نہیں ہوں گا؟ جواب درکار ہے۔

جواب

واضح رہے کہ بچی کو کسی ایسے ادارے کے حوالے کرنا درست نہیں، جہاں نہ تو اسلامی ماحول ہو، اور نہ بچوں کی صحیح تربیت اور نگرانی ہوسکے، اور نہ ان کی عزت کی حفاظت ممکن ہو، لہذا حتی الامکان آپ خود کوشش کریں کہ بچی کی خدمت کریں، کیوں کہ والدین بچی کی جس طرح پرورش کرسکتے ہیں، اور کوئی نہیں کرسکتا، دوسروں کے ساتھ رکھنا مشکل ہو ،تو الگ کمرے یا گھر میں اسے رکھا جائے۔
لما في الشامیۃ:
’’أما حضانتہ فإن أمکنہ حفظ المحضون کان أہلا وإلا فلا، وہو بحث وجیہ وھو معلوم من قول الرملي قادرۃ کما یعلم منہ حکم ما إذا کانت مریضۃ أو کبیرۃ عاجزۃ‘‘.(باب الحضانۃ: ٣/ ٥٥٦: سعید)
وفي البدائع:
’’وشفقۃ الأب فوق شفقۃ الکل۔۔۔۔۔۔ ولا شک أن شفقۃ القریب علی قریبہ فوق شفقۃ الأجنبي‘‘.(کتاب البیوع، فصل في ترتیب الولایۃ: ٦/ ٥٩٥: رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 173/55