دوکاندار کا ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے پیسے نکالنے پر اجرت لینا

دوکاندار کا ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے پیسے نکالنے پر اجرت لینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایزی پیسہ جمع کرواتے وقت اپنے موبائل اکاؤنٹ میں یا کسی اور کے موبائل اکاؤنٹ میں دوکاندار ٹیکس لیتے ہیں ایک ہزار روپے کے عوض دس روپیہ، جبکہ اکاؤنٹ میں ڈالنے کے کمپنی کی طرف سے اس پہ کوئی چارجز نہیں ہے (جیسے نکالنے پر کمپنی کی طرف سے چارجز ہے) تو کیا یہ ٹیکس لینا ان دوکانداروں کے لیے جائز ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں دوکاندار جو ایک ہزار روپے کے عوض دس روپیہ لے رہا ہے، یہ اس کی اجرت کا عوض ہے، اگرچہ کمپنی کی طرف سے اس پہ کوئی چارجز نہ ہو، البتہ معاہدہ کی بنا پر اضافی رقم لینا درست ہے، لیکن معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔
لما في فقہ البیوع:
’’الأشکال الأول: أن دائرۃ البرید تتقاضي عمولۃ من المرسل علی إجراء ھذہ العملیۃ، فالمدفوع إلی البرید أکثر مما یدفعہ إلی المرسل إلیہ، فکان في معنی الربوا ولھذا السبب أفتی بعض الفقھاء في الماضي القریب بعدم جواز إرسال النقود بھذا الطریق، ولکن افتی کثیر من العلماء المعاصرین بجوازھا علی أساس أن العمولۃ التي یتفاضاھا البرید عمولۃ مقابل الأعمال الإداریۃ من دفع الاستمارۃ، وتسجیل المبالغ وإرسال الاستمارۃ، أو البرقیۃ وغیرھا إلی مکتب البرید في بلد المرسل إلیہ أو علی ھذا الأساس جوز الإمام أشرف علی التھانوي رحمہ اللہ تعالٰی إرسال المبالغ عن طریق الحوالۃ البریدیۃ‘‘.(العمولۃ علی الحوالۃ البریدیۃ: 750/2، مکتبۃ معارف القرآن).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/298