جھگڑالو بیوی سے نباہنے کا طریقہ

جھگڑالو بیوی سے نباہنے کا طریقہ

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری پہلی بیوی 37 سال بعد انتقال کرگئی، میری عمر60 برس ہے، میرے بچے نہیں تھے، اس لیے میں نے ایک بیوہ سے شادی کرلی ہے، جس سے ایک 16 سال کی بیٹی بھی ہے جو ہمارے ساتھ رہتی ہے، ہماری دوسری شادی کو تقریبا19 ماہ گزر گئے، ہم دونوں میں ہم آہنگی کبھی بھی پیدا نہیں ہوئی، ذرا ذرا سی بات پر جھگڑا کرتی ہے، محلہ اور روڈ پر جاکر شور شرابہ کرتی ہے، محلہ والوں کو تماشہ دکھاتی ہے، او رکہتی ہے گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی، جب کہ میں اس کو اپنے بہن اور بھائی کے گھر جانے پر بھی کبھی منع نہیں کرتا، گھر کا خرچہ اور دوائی وغیرہ کا خرچہ بھی دیتا ہوں، جب میں اپنے بہن، بھائی اور اپنے رشتہ داروں کے گھر یا بیماری وغیرہ یا ملنے کے لیے جانے کا کہتا ہوں، تو اس وقت جھگڑا شروع کردیتی ہے، میں اس کے اس رویے سے بہت پریشان ہوگیا ہوں، کیا میں الگ اپنی رہائش اختیار کرسکتا ہوں؟ مجھے شرعی طریقہ بتایا جائے اس کو خرچہ دوں یا نہیں؟ میں اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا ہوں۔

جواب

صورت مسئولہ میں آپ سب سے پہلے اپنی بیوی کو نصیحت کریں، میاں بیوی کے حقوق سمجھائیں، اور ان سے کہیں کہ آپ اللہ تعالی سے ڈریں، اور اپنے اس رویے سے اللہ کی خاطر رجوع کریں، ان سب باتوں کے باوجود پھر بھی اپنے رویے سے باز نہ آئے، تو آپ اپنا بستر اپنی بیوی سے الگ کردیں، اگر وہ فرمانبردار بن جائے تو آئندہ آپ ان کا خیال رکھیں، زبان سے انہیں سخت بات نہ کہیں، نہ آپ کے کسی فعل کی وجہ سے اس کو تکلیف ہو، لیکن اپنی بیوی کا خرچہ وغیرہ بند نہ کریں، ان شاء اللہ پھر آپ کی ازدواجی زندگی میں سکون ہوگا، برکتیں بھی ہوں گی۔
لما في التنزیل:
«وَاللَّاتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھنَّ سَبِیْلًا إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا».(النساء، رقم الآیۃ: ٣٤)
وفي روح المعاني:
«فعظوھن» أي: فانصحوھن وقولوا لھن اتقین اللہ وارجعن عما أنتن علیہ......«واھجروھن في المضاجع» أي: مواضع الاضطجاع والمراد اترکوھن منفردات في مضاجعھن.......، فلا تدخلوھن تحت اللحف ولا تباشروھن، فیکون الکلام کنایۃ عن ترک جماعھن...... «فإن أطعنکم» أي: وافقنکم وانقدن لما أوجب اللہ تعالی علیھن من طاعتکم بذلک کما ھو الظاھر،« فلا تبغوا علیھن سبیلا »أي: فلا تطلبوا سبیلا وطریقا إلی التعدي علیھن أو لا تظلموھن بطریق من الطرق بالتوبیخ اللساني والأذی الفعلي وغیرہ....... «إن اللہ کان علیا کبیرا»، فاحذروہ، فإن قدرتہ سبحانہ علیکم أعظم من قدرتکم علی من تحت أیدیکم منھن‘‘.(النساء:٣٤: ٦/ ١٤-١٧:مؤسسۃ الرسالۃ)
وفي الصحیح لمسلم:
’’عن عائشۃ رضي اللہ عنہا عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: الرحم معلقۃ بالعرش تقول: من وصلني وصلہ اللہ ومن قطعني قطعہ اللہ‘‘.(باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا،رقم الحدیث:١١٢١: دار السلام للنشر والتوزیع).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:76/ 176