بیٹے کا والدین کے ساتھ برے رویے کو ختم کرنے کا طریقہ

بیٹے کا والدین کے ساتھ برے رویے کو ختم کرنے کا طریقہ

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ بیٹے کی الزام تراشی ،جارحانہ انداز کو، بدتمیزی کو زائل کرنے کا کیا طریقہ ہے۔ازراہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

آپ کو چاہیے کہ کسی ایسے بندے کو تلاش کریں ،جس کے ساتھ آپ کے بیٹے کی دوستی ہو، یا کوئی عالم ہو، اور وہ اس کو والدین کے حقوق بتلائے کہ والدین کے کتنے حقوق ہیں، اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بہت سی جگہ اپنی عبادت کے ساتھ والدین پر احسان کی تاکید فرمائی ہے، جیسا کہ اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتے ہیں: ”اور تمہارے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو”۔ (بنی اسرائیل: ٢٣)
اسی طرح دوسری جگہ پر فرماتے ہیں: ”اور ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کریں”۔ (عنکبوت: ٨)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ”اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے بارے میں یہ تاکید کی ہے (کیوں کہ) اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری برداشت کرکے پیٹ میں رکھا، اور دو سال میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے کہ تم میرا شکر ادا کرو، اور ماں باپ کا، میرے پاس ہی (تمہیں) لوٹ کر آنا ہے”۔ (لقمان: ١٤)
ایک اور جگہ پر ارشاد باری تعالی ہے: اور دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی سے رہو۔ (لقمان ١٥)
اسی طرح احادیث میں بھی والدین کے حقوق کی رعایت اور راضی رکھنے کی سخت تاکید آئی ہے، اس لیے جہاں تک ہوسکے والدین کو راضی رکھنا چاہیے، جب تک کسی گناہ کے کام کا حکم نہ ہو، اس لیے کہ گناہ کے کام میں ان کی بات کا ماننا جائز نہیں ہے۔
اسی طرح والدین پر بھی اولاد کے حقوق ہیں، جب والدین ان حقوق کی رعایت کرتے ہیں، تو اس سے بھی جھگڑے وغیرہ ختم ہوجاتے ہیں، جیسا کہ بچہ پیدا ہونے کے بعد اس کے کانوں میں اذان اور اقامت کا پڑھا جانا، عقیقہ کر نا، اچھا نام رکھنا، حسنِ ادب اور دینی تربیت سکھلانا، ہبہ وغیرہ میں مساوات کا معاملہ کرنا، ایسا نہ ہو کہ کسی کو زیادہ دینا اور کسی کو محروم کرنا، اور جب اولاد نکاح کے قابل ہوجائے تو اس کے نکاح کا بندوبست کرنا۔
لما في التنزیل:
˒˒وقضی ربک ألا تعبدوا إلا إیاہ وبالوالدین إحسانا إما یبلغن عندک الکبر أحدھما أو کلاھما فلا تقل لھما أف ولا تنھرھما وقل لھما قولا کریما˓˓.(سورۃ بني إسرائیل: ٢٣)
وفیہ أیضا:
˒˒ووصینا الإنسان بوالدین حسنا وإن جاھداک لتشرک بي ما لیس لک بہ علم فلا تطعھما إلي مرجعکم فأنبئکم بما کنتم تعملون˓˓. (سورۃ العنکبوت: ٨)
وفی مشکوٰۃ المصابیح:
’’وعن ابن عباس رضي اللہ عنہما قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:«من أصبح مطیعا للہ في والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من الجنۃ وإن کان واحدا فواحدا، ومن أمسی عاصیا للہ في والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من النار وإن کان واحدا فواحدا» قال رجل: وإن ظلماہ؟ قال:«وإن ظلماہ وإن ظلماہ وإن ظلماہ».(کتاب الأداب، باب البر والصلۃ، الفصل الثالث: ص: ٤٢١: قدیمی).
وفي سنن الترمذي:
’’عن عبد اللہ بن عمرو، عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم، قال:رضا الرب في رضا الوالد، وسخط الرب في سخط الوالد‘‘.(أبواب البر والصلۃ، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدین: رقم الحدیث: ١٩٠٠،بیروت).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 175/180