بجلی کے بل ادا نہ کرنے کی صورت میں واپڈا والوں کا میٹر لے جانا

بجلی کے بل ادا نہ کرنے کی صورت میں واپڈا والوں کا میٹر لے جانا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے باقاعدہ واپڈا میں بجلی کے میٹر کے لیے دس ہزار روپے جمع کیے وہ میٹر لگ گیا، اور استعما ہوتا رہا، اب زید پر ایک لاکھ روپے بل جمع ہوگیا ہے، جس کے ادا کرنے سے قاصر ہے، واپڈا والوں نے زید کو وارننگ دی ہے کہ اگر ایک ماہ کے اندر بل جمع نہ کیا ،تو ہم آپ سے میٹر واپس لے لیں گے، زید نے واپڈا والوں سے کہا کہ آپ کا یہ حق نہیں بنتا کہ مجھ سے میٹر لے جاؤ، کیوں کہ اس کے لیے میں نے باقاعدہ دس ہزار روپے واپڈا والوں کو دیے ہیں، اب یہ میری ملکیت ہے اور کسی کی ملکیت سے کوئی چیز بغیر اس کی اجازت کے لینا حرام ہے۔
مفتی صاحب! رہنمائی فرمائیں کہ واپڈا والوں کو میٹر لے جانے کا حق ہے یا نہیں؟
وضاحت: واپڈا کے ایک آفیسر سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ میٹر لگاتے وقت جو فیس لی جاتی ہے، وہ صرف میٹر لگانے کی فیس ہوتی ہے، اور کئی مہینوں تک بجلی کے بل ادا نہ کرنے کی صورت میں میٹر کو ضبط کرنا واپڈا والوں کا قانون ہے۔

جواب

ہماری معلومات کے مطابق واپڈا والے بجلی کے میٹر کے لیے جو دس ہزار روپے لیتے ہیں ،وہ صرف میٹر لگانے کی فیس ہوتی ہے، جس سے وہ میٹر لگوانے والے کی ملکیت میں داخل نہیں ہوتا، جب کہ واپڈا والوں کا یہ قانون ہے کہ اگر کوئی صارف مسلسل کئی مہینوں تک بجلی کا بل ادا نہ کرے، اور وہ واپڈا والوں کا مقروض ہوجائے، تو واپڈا والے میٹر واپس لے لیتے ہیں۔
اب چوں کہ واپڈا ایک حکومتی ادارہ ہے اور آدمی جب کسی حکومت کے ماتحت ہوتا ہے، تو اس کے جائز قوانین کی پابندی اس پر لازم ہوتی ہے، نیز قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں آدمی کے جان ومال کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور شرعاً اپنی جان ومال کو خطرے میں ڈالنا جائز نہیں، لہذا صورت مسئولہ میں زید کو چاہیے کہ وہ وقت پر بجلی کا بل ادا کرے، خلاف ورزی کی صورت میں واپڈا والوں کے لیے بجلی کے میٹر کو واپس لینے کی اجازت ہے۔
لما في التنزیل:
«یا آیہا الذین آمنوا أطیعوا اللہ وأطیعوا الرسول وأولي الأمر منکم». (سورۃ النساء: ٥٩)
وفي روح المعاني:
’’«یا أیہا الذین آمنوا»أمر الناس بطاعتھم في ضمن إطاعتہ عز وجل وإطاعۃ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم «أطیعوا اللہ وأطیعوا الرسول وأولي الأمر منکم» واختلف في المراد بھم، فقیل: أمراء المسلمین في عھد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وبعدہ، ویندرج فیھم الخلفاء والسلاطین والقضاۃ وغیرھم‘‘.(سورۃ النساء[الآیۃ: ٥٩]، ٦/ ١٠٤، ط: مؤسسۃ الرسالۃ).
وفي الدر المختار:
’’لأن طاعۃ الإمام فیما لیس بمعصیۃ فرض، فکیف فیما ھو طاعۃ‘‘.(کتاب الجھاد، باب البغاۃ، ٦/ ٤٠٤، مکتبۃ رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/290