اولاد اور والدین کے حقوق

اولاد اور والدین کے حقوق

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:

وصیت نامہ

میں مسمی طارق ولد محمد طارق خان اپنے ہوش وحواس میں یہ وصیت کرتا ہوں، اگر مجھے کچھ ہوجائے تو میرا چہرہ میری ماں اور باپ کو نہ دکھایا جائے، اس کے علاوہ میری فیملی کے لوگوں کو میرا جنازہ اٹھانے یا نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں ہے، میرے بہن بھائی جوکہ مجھے اپنا کہتے ہیں آج تک ان لوگوں نے کبھی بھی کال نہیں کی، اگر میں کر لوں تو کرلوں، عید پر بھی کال نہیں کرتے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ میرے حق میں کبھی بھی دعا نہ کریں۔
یہ وصیت اس وجہ سے لکھ رہا ہوں کہ مجھے اذیت دینے والے میرے ماں باپ ہیں، انہوں نے دوسروں کو بھی موقع دیا تاکہ وہ لوگ بھی مجھے اذیت دیں، لگتا ہے مجھے کہیں سے اٹھا کر لائے، اور مجھے پالا ہے، اس کے علاوہ میری ماں دوسرے بچوں کو اپنا بچہ سمجھتی ہے، ان کو آگے آگے رکھتی ہے، مجھے ذلیل کرتی ہے، ماں مجھے معلوم ہے، میرے بعد میری بیوی یا بچوں کا حال کیا کرے گی، اللہ تعالی میری بیوی، بچوں کا نگہبان ہے۔

برائے کرام آپ مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ مذکورہ معاملہ میں راہنمائی فرمائیں۔
1…… مذکورہ وصیت نامہ کی شرعی اور قانونی حیثیت کیا ہے؟
2…… بیٹے کی فیملی گھر میں نیچے تمام سہولتوں کے ساتھ شیر وشکر کی طرح رہتی ہے، مگر جاب کا اگر مسئلہ ہے تو عذر والدین سے کرناکیسا ہے؟

جواب

١) صورت مسئولہ میں مذکورہ وصیت نامہ کی شرعی اور قانونی کوئی حیثیت نہیں ہے، بلکہ آپ سب اس کی نماز جنازہ اور تجہیز وتکفین میں شریک ہوں، اور اس بیٹے کے حق میں دعائے خیر بھی کیا کریں، آخرت میں اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا، بلکہ اس پر آپ کو اجر ملے گا۔
٣) والد صاحب پر بیٹے کا جو حق تھا، یعنی شادی کرنا وغیرہ، وہ والد صاحب نے ادا کردیا ہے، لہذا اب بیٹے کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے خود اچھی سے اچھی جاب تلاش کرے، اور والدین پر بلا وجہ غصہ نہ کرے، اس لیے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں: ”اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں، تو انہیں اُف تک نہ کہو، اور نہ انہیں جھڑکو، بلکہ ان سے عزت کے ساتھ بات کیا کرو”۔ (بنی اسرائیل: ٢٣)
لما في التنزیل:
˒˒وقضی ربک ألا تعبدوا إلا إیاہ وبالوالدین إحسانا إما یبلغن عندک الکبر أحدھما أو کلاھما فلا تقل لھما أف ولا تنھرھما وقل لھما قولا کریما˓˓.(سورۃ بني إسرائیل: ٢٣)
وفیہ أیضا:
˒˒ووصینا الإنسان بوالدین حسنا وإن جاھداک لتشرک بي ما لیس لک بہ علم فلا تطعھما إلي مرجعکم فأنبئکم بما کنتم تعملون˓˓. (سورۃ العنکبوت: ٨)
وفي مشکاۃ المصابیح:
’’وعن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:«حق المسلم علی المسلم خمس: رد السلام وعیادۃ المریض واتباع الجنائز وإجابۃ الدعوۃ وتشمیت العاطس»‘‘.(کتاب الجنائز، باب عیادۃ المریض وثواب المرض، الفصل الأول: ص: ١٣٣: قدیمي)
وفیہ أیضاً:
’’وعن ابن عباس رضي اللہ عنہما قال، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:«من أصبح مطیعا للہ في والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من الجنۃ وإن کان واحدا فواحدا، ومن أمسی عاصیا للہ في والدیہ أصبح لہ بابان مفتوحان من النار وإن کان واحدا فواحدا» قال رجل: وإن ظلماہ؟ قال:«وإن ظلماہ وإن ظلماہ وإن ظلماہ».(کتاب الأداب، باب البر والصلۃ، الفصل الثالث: ص: ٤٢١: قدیمی).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتوی نمبر: 175/178