کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص گیارہ ذو الحجہ کو زوال سے پہلے رمی کرتا ہے، تو ایسے شخص کے متعلق شریعت میں کیا حکم ہے؟
صورت مسئولہ میں اگر کسی شخص نے گیارہ ذو الحجہ کو رمی زوال سے پہلے کرلی، تو اس کی وہ رمی درست نہ ہوئی، اس پر لازم ہوگا کہ زوال کے بعد رمی کا اعادہ کرے، لیکن اگر اعادہ نہ کرسکا، تو ایسے شخص پر حدودِ حرم میں دم دینا لازم ہوگا۔
لما في تنویر الابصار:
’’فمن الزوال لطلوع ذکاء‘‘.
قال إبن عابدین رحمہ اللہ تعالیٰ:
’’(قولہ: فمن الزوال لطلوع ذکاء) أي: إلی طلوع الشمس من الیوم الرابع، والمراد أنہ وقت الجواز في الجملۃ في اللباب: وقت رمي الجمار الثلاث في الیوم الثاني والثالث من أیام النحر بعد الزوال، فلا یجوز قبلہ في المشھور.....فلو أخرہ عن وقتہ أي المعین لہ في کل یوم فعلیہ القضاء والجزاء‘‘.(کتاب الحج، مطلب في رمي الجمار الثلاث:۳/۶۱۹،رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
فتویٰ نمبر:179/113
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی