کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کی دکان ہے جو اس نے ایک مزدو رکو کرائے پر دی اور سامان بھی دیا ہے، جیسے:چائے، سوکھا دودھ وغیرہ، لیکن مالکِ دکان ان سب چیزوں میں سے منافع لیتا ہے، پھر مالک دکان نے کہا کہ مجھے دودھ میں منافع زیادہ دو گے، لیکن مزدور نے زیادہ منافع دینے سے انکار کر دیا او رمالک دکان کو کہا کہ اپنا سامان اٹھالیں، تو مالک دکان نے ایسا ہی کیا، پھر مزدور نے ایک دوسرے دکان والے سے بات کی جس میں کباڑ کا سامان ملتا ہے اور طے یہ کیا کہ آپ اپنی دکان میں اپنے پیسوں سے دودھ لایا کریں او رگاہک میں بھیج دیا کروں گا، لیکن اس میں کمیشن دینا پڑے گا، حالاں کہ سب کچھ اس کباڑ والے کا ہے، تو آیا اس مزدور کے لیے یہ کمیشن لینا جائز ہے یا نہیں؟
مزدور کے لیے کمیشن لینا جائز ہے، کیوں کہ گاہک بھیجنا ایک عمل ہے او رکمیشن اس عمل کی اجرت ہے اور جائز عمل کی اجرت لینا جائز ہے۔
''وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل، وما تواضعوا علیہ أن في کل عشرۃ دنانیر کذا، فذلک حرام علیہم.وفي الحاوي:سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار،فقال:أرجو أنہ لا بأس بہ وإن کان في الأصل فاسدا،لکثرۃ التعامل،وکثیرمن ہذا غیر جائز،فجوزوہ لحاجۃ الناس إلیہ''.(رد المحتار،کتاب الإجارۃ، مطلب في أجرۃ الدلال: ٦/٦٣، سعید)
''والسمسار اسم لمن یعمل للغیر بالأجرۃ بیعًا وشراءً''.(المبسوط للسرخسي،کتاب الإجارۃ، باب السمسار: ١٥/١٢٨، مکتبۃ الغفاریۃ کوئٹہ).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی