کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارا ٹی وی،وی سی آر اور ٹیپ ریکاڈر کا کاروبار ہے ،جو حرام ہے، ہم اس کاروبار کو ختم کرکے دوسرا کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں ،جس کے لیے ہم نے کمپیوٹر کے بنانے اوربیچنے کے کاروبار کے بارے میں سوچا ہے، آپ برائے مہربانی مجھے یہ بتائیں کہ کمپیوٹر کاکاروبار کرنا جائز ہے یا نہیں، کیوں کہ کمپیوٹر میں بھی ٹی وی کا مانیٹر ہوتا ہے، اس میں بھی فلم وغیرہ آتی ہے۔
کمپیوٹر کا زیادہ تر استعمال جائز کاموں میں ہوتا ہے، اس لیے اس کا کاروبار صحیح ہے اور اس کی مرمت کے ذریعہ حاصل شدہ روزی حلال ہے، ہاں اگر اس کو کوئی ناجائز کاموں میں استعمال کرتا ہو تو اس کا وبال اسی پر ہو گا، اس سے اس کاروبار کے جائز ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔''(ویکرہ تحریما (بیع السلاح من أہل الفتنۃ إن علم)؛ (قولہ:إن علم)۔۔۔ لأنہ یقاتل بعینہ ۔۔۔ وکذا لا یکرہ بیع الجاریۃ المغنیۃ والکبش النطوح والدیک المقاتل والحمامۃ الطیارۃ؛ لأنہ لیس عینھا منکرا وإنما المنکر في استعمالھا المحظور، قلت:لکن ھذہ الأشیاء تقام المعصیۃ بعینھا لکن لیست ھي المقصود الأصلي منھا، فإن عین الجاریۃ للخدمۃ مثلاً والغناء عارض فلم تکن عین المنکر بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منہ ہو المحاربۃ بہ فکان عینہ منکرا إذا بیع لأھل الفتنۃ''. (الدر المختار مع رد المحتار، باب البغاۃ: ٤/٢٦٨،سعید)
''فإن علم البائع أو غلب علی ظنہ أنہ یقصد استعمالہ في المعصیۃ کرہ تحریماً وإلاّجاز ویؤیّد کلام المبسوط الذي صرح فیہ بالجواز بعد تصریحہ بالحرمۃ قبل ذلک حیث علم بہ البائع''.(جواہر الفقہ:٢/٤٤٤، دارالعلوم کراچی).
فقط واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی